منگل 2جنوری کو صدر ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنے توہین آمیز ٹویٹ میں کہا: ’’امریکا نے پاکستان کو 15سال میں احمقانہ طور پر 33ارب ڈالر دی جب کہ پاکستان نے اس امداد کے بدلے میں ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس نے ہماری قیادت کو بے وقوف سمجھا۔ امریکا جن دہشت گردوں کا افغانستان میں تعاقب کرتا ہے انہیں پکڑنے میں پاکستان نہ ہونے کے برابر مدد کرتا ہے بلکہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔‘‘ صدر ٹرمپ کے اس بیان پر پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اسی روز وزیراعظم سے ’’اہم‘‘ ملا قات کی جس میں صدر ٹرمپ کے بیان کا سخت نوٹس لیا گیا۔ دفتر خارجہ میں امریکی سفیر سے شدید احتجاج کیا گیا۔ دفتر خارجہ نے صدر ٹرمپ کے بیان پر امریکا سے وضاحت طلب کی۔ فوجی ترجمان نے کہا ’’قومی بیانیے پر متحد ہونا ہوگا۔ نومور کا کہہ چکے‘‘۔ خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا ’’امریکا نے حملہ کیا تو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہم نے پہلے ہی نو مور کہہ دیا۔ امداد بند کرنے کی اب کوئی اہمیت نہیں۔‘‘
بدھ 3جنوری: آرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس۔ سیکورٹی صورت حال اور بیرونی خطرات کا تفصیلی جا ئزہ۔ جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ امریکا منفی بیانات سے اہداف حاصل نہیں کرسکتا ہماری قربانیاں تسلیم کرے۔ پاکستانی قوم اپنا دفاع کرنا جانتی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ۔ وزیراعظم کی سربراہی میں اجلاس۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی شرکت۔
جمعرات 4جنوری: امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ایچ آرمک ماسٹر نے الزام عائد کیا کہ: ’’دہشت گردی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ وہ بدستور دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے۔ اس نے اپنی حدود میں بلا امتیاز کارروائی نہیں کی۔ پاکستان کی دوسروں کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے کے رویے سے صدر ٹرمپ کو مایوسی ہوئی۔ ہمارے تعلقات مزید تضادات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان عالمی برادری میں دھتکاری ہوئی ریاست بننے سے بچے۔‘‘
جمعہ 5جنوری: امریکی حملے کا خدشہ۔ پاک فضائیہ ہائی الرٹ۔ ائر چیف مارشل کا ائر ڈیفنس کمانڈ کا ہنگامی دورہ۔ حساس تنصیبات کا جائزہ۔ تمام بیسز کو ہمہ وقت تیار رہنے کا حکم۔ جارحیت کا جواب دیا جائے گا۔ امریکی امداد کی تفصیلی رپورٹ جلد جاری کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا ’’امریکا یار مار ہے۔ امریکا نے ہمیشہ دھوکا دیا‘‘۔ امریکا کی پاکستان کی سیکورٹی معاونت ختم کرنے کا اعلان۔ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل۔ حقانی نیٹ ورک، افغان طالبان اور دیگر کے خلاف کارروائی تک امداد معطل رہے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ۔
ہفتہ 6جنوری: فوجی امداد اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دو ارب ڈالر کی امداد روکی جائے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ۔ امریکا نقصان اٹھائے گا۔ پیسے کے لیے نہیں عالمی فائدے میں دہشت گردی کی جنگ لڑی۔ پاکستان۔ ’’حقانی کے اڈے ختم کردیے۔ امریکا خود آکر دیکھ لے۔ خواجہ آصف‘‘۔
بدھ 10جنوری: امریکا سے انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون معطل کردیا۔ وزیر دفاع خرم دستگیر۔
جمعہ 12جنوری: سی آئی اے سربراہ کی بھارت میں سرگرمیوں پر نظر ہے۔ سیکورٹی کے معاملے پر امریکا سے رابطے جاری ہیں۔ پاکستان
ہفتہ 13جنوری: ’’امریکانے دھوکا دیا امداد نہیں مانگیں گے۔ اپنی قربانیوں کا اعتراف چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مخلصانہ کوششیں جاری رکھیں گے۔ امریکی تحفظات سے آگاہ ہیں۔ جنرل باجوہ‘‘
اتوار 14جنوری: پاکستان نے فوجی اور انٹیلی جنس تعاون ختم کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ
جمعرات 18جنوری: پاکستان امریکا کو زمینی اور فضائی راستے مفت میں فراہم کررہا ہے۔ نہیں چاہتے ہماری وجہ سے افغان امن کوششوں میں رخنہ آئے۔ اور بگاڑ پیدا ہو۔ خواجہ آصف۔‘‘ امریکی ڈرون حملہ۔ دو افراد مارے گئے۔
جمعہ 19جنوری: ’’پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرے۔ اربوں ڈالر دہشت گردوں کی معاونت کے لیے نہیں دیے تھے۔ امریکا‘‘۔ ’’امریکا سے کوئی تعاون معطل نہیں کیا دونوں ممالک کے درمیان تمام شعبوں میں معاونت جاری ہے۔ تعلقات میں بہتری کے لیے مسلسل رابطے ہورہے ہیں۔ تفصیلات میڈیا کو نہیں بتائی جاسکتیں۔ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان۔‘‘
اتوار21جنوری: ’’پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دے رکھی ہے۔ امریکا‘‘
صدر ٹرمپ کی دھمکی سے لے کر تاحال ان تفصیلات میں امریکی موقف میں ایک تسلسل اور استقامت نظر آتی ہے جب کہ ابتدائی شور شرابے کے بعد پا کستان کے حکمران بتدریج پسپائی اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ بظاہر امریکا کی پرزور مذمت کرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی گالیاں سننے کے باوجود وہ ذرہ بھر بھی بدمزہ نہیں۔ ان کی جانب سے کسی بھی معاملے میں امریکا کو نومور نہیں کہا گیا۔ وہ اندر ہی اندر افغانستان میں امریکا کو شکست سے بچانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ 5جنوری 2018 کو پنٹا گون میں ہونے والی ایک پریس بریفنگ میں امریکا کے سیکرٹری دفاع جیمز میٹس نے اس بات کا عندیہ دیا کہ ’’اندر ہی اندر فوجی سطح پر امریکی مطالبات پر تعاون کے لیے پاک امریکا تعلقات جاری ہیں۔ جنرل جوزف ووٹل کی جنرل باجوہ سے فون پر بات ہوئی ہے اور ہم یہ تعاون جاری رکھیں گے۔‘‘ پاکستان کے حکمران ہمیشہ کی طرح آج بھی امریکا کی مفت میں اطاعت کررہے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ آصف نے کہا کہ ’’ہم مفت میں امریکا کو زمینی اور فضائی راستے مہیا کررہے ہیں‘‘۔ امریکا جانتا ہے کہ صرف پاکستان ہی اسے افغانستان میں بچا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کی تذلیل کررہا ہے اور انڈیا کو مضبوط کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پا کستان کے حکمران ایسا کیوں کررہے ہیں۔ امریکا سے انہیں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں مل رہا اس کے باوجود وہ امریکا کے اس قدر وفادار کیوں ہیں۔ اس کا جواب ہمیں بدھ 17جنوری کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کو دی گئی پریس بریفنگ میں ملتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’امریکا نے پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ سیکورٹی معاونت کے نام پر دی جانے والی امداد کی معطلی کے باوجود امریکا فوجی تر بیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ امریکا امداد کے اس حصے کو جاری رکھے گا جو اس کے اپنے قومی مفاد میں ہے جس میں انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (IMET) شامل ہے۔ یہ پروگرام خاص عسکری علوم کی تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس ملک کو امداد دی جارہی ہے اس کا امریکی فوج سے ایک تعلق بن جائے تاکہ مستقبل میں اتحاد بنانے میں اس تعلق کو استعمال کیا جائے۔ اس پروگرام کے تحت پچھلے 15سال میں پاکستان آرمی کی فوجی تربیت پر امریکا نے 52ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس سال اس مد میں 4ملین ڈالر رکھے گئے ہیں۔‘‘ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے جب وہ امریکا گئے تھے تو امریکیوں نے ان سے رابطہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں امریکی مفاد کے لیے کام کریں نہ کہ پاکستان کے مفاد میں۔ یہ ہے پاکستان کے حکمرانوں کی امریکی مفاد کی نگہبانی کرنے کی وجہ ورنہ امریکیوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ پاکستانی فوجوں کی تربیت کریں اور اتنی خطیر رقم خرچ کریں۔