زینب مقدمہ قتل اُلجھا دیا گیا 

442

عدالت عالیہ لاہور نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو حکم دیا ہے کہ زینب کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ7دن میں سنا دیا جائے اور عدالت روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے ۔ ایسے مقدمات کا فیصلہ تیزی سے ہونا چاہیے لیکن انسداد دہشت گردی کی عدالت نے7دن میں فیصلہ سنا بھی دیا تو موجودہ عدالتی نظام کے تحت یہ ممکن نہیں ہے کہ قاتل کو فوری طور پر سزا بھی دے دی جائے ۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو خود عدالت عالیہ میں چیلنج کر دیا جائے گا اور پھر معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچے گا اور وکلاء قانونی موشگافیاں کریں گے ۔اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے ایک سینئر افسر نے تو آئی جی پنجاب کو آگاہ کر دیا ہے کہ ڈی این اے میچ کی بنیاد پر ملزم عمران کوسزا نہیں ہو سکتی اور اگر معاون شہادتیں جلد حاصل نہ کی جا سکیں تو ملزم کو ضمانت پر رہائی مل جائے گی ۔ اس تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ2016ء میں عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ڈی این اے کی رپورٹ غیر مستند شہادت ہے اور اس کی بنیاد پر قتل کے ملزم کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی ۔ مذکورہ افسر نے آئی جی پنجاب کو اپنی تحریری رپورٹ میں مثال بھی دی ہے کہ زیادتی کے بعد قتل کے مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے دو ملزمان کو بری کر دیا تھا ۔ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ پولیس افسر ایک خطرناک قاتل کو بری کروا کر رہیں گے ۔ وہ خود تفتیشی افسر ہیں چنانچہ ان کی ذمے داری ہے کہ معاون شہادتیں حاصل کریں ۔ پنجاب پولیس نے ملزم عمران کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کرا لیا ہے جسے معاون شہادت کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔ لیکن پولیس حکام کا اصرار ہے کہ دونوں شہادتوں کی بنیاد پر ملزم کو مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔ کیا پنجاب پولیس اسے بے گناہ ثابت کرنے پر تل گئی ہے؟ اس سے تو اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ ملزم عمران کے پیچھے کوئی ایسی شخصیت ہے جو پولیس کو اپنے اشاروں پر چلا رہی ہے ۔ ایسی صورت میں زینب قتل کا فیصلہ 7 دن میں ہوتا نظر نہیںآتا ۔ اب معصوم زینب خود آ کر تو گواہی دینے سے رہی ۔ اسی اثناء میں عدالت نے آئی جی پنجاب پولیس اور آئی جی جیل خانہ جات کو ہدایت کی ہے کہ ملزم کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ ملزم عمران کی جان کو خطرات لا حق ہیں اور اگر اس کے پیچھے کوئی گروہ ہے تو وہ مارا جا سکتا ہے تاکہ پردہ پڑا رہے ۔ اس سے پہلے 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال کو پولیس حراست ہی میں مار دیا گیا تھا ۔ ٹی وی اینکر شاہد مسعود نے نیاپنڈورا باکس کھول دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ملزم عمران کے 40 بینک اکاؤنٹ ہیں جو ان کے کہنے کے مطابق پیر تک 80 ہو جائیں گے ۔ لیکن اسٹیٹ بینک نے عمران کے نام پر کسی بھی بینک میں اکاؤنٹ کی تردید کی ہے ۔ شاہد مسعود نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو ایک پرچے پر دو افراد کے نام لکھ کر دیے ہیں جو ان کے مطابق عمران کے سر پرست ہیں اور ان میں سے ایک وفاقی وزیر دوسرا کوئی اہم شخص ہے ۔ شاہد مسعود کی پرچی چیف جسٹس نے اپنے دو ساتھی ججوں کو دکھا کر جیب میں رکھ لی اور کہا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد یہ نام افشا کیے جائیں گے ۔ شاہد مسعود نے جو دعوے کیے ہیں ان سے ان کا پورا کیریر داؤ پر لگ گیا ہے اور چیف جسٹس نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے تو اچھا نہیں ہو گا ۔ اس کا احساس شاہد مسود کو بھی ہو گا پھر بھی انہوں نے ایسے دعوے کیے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے ۔ دو ٹی وی چینلز پیشہ ورانہ رقابت کامظاہرہ کرتے ہوئے خود شاہد مسعود کے مقابلے میں اُتر آئے ہیں ۔ بہتر تھا کہ کچھ دن صبر کر لیتے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو جائے تب بھڑاس نکالی جا سکتی تھی ۔ بہر حال یہ انکشافات سامنے آنے سے فیصلہ یقیناً تاخیر کا شکار ہو گا ۔ لیکن اگر واقعی کچھ با اثر شخصیتیں ملزم کی پشت پر ہیں تو ان کی خواہش یہی ہو گی کہ عمران جلد از جلد پھانسی پر چڑھ جائے ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب فرانزک لیب ایجنسی کے ڈائرکٹر خود امریکا میں مطلوب ہیں ۔ اس حوالے سے فرانزک رپورٹ کو مشکوک بنایا جا سکتا ہے ۔