ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
عالمی غربت کے خلاف کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم نے دنیا میں بھوک، افلاس، غربت اور امارت کے درمیان تفاوت پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جو ہر سال جاری کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں اور دائروں میں جدت، ندرت اور ترقی کے باوجود کسانوں، مزدوروں اور چھوٹے کاریگروں کی مالی حالت میں کوئی زیادہ فرق نہیں آیا بلکہ بعض جگہ حالات بدتر ہوگئے ہیں، یہ ضرور ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں حیران کن تیز رفتار ترقی کے باعث آپ سات سمندر پار اپنے کسی عزیز سے باآسانی ویڈیو کال کرسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل بینکنگ کے شعبے میں گھر بیٹھے کسی دوسرے ملک میں رقم بھجواسکتے ہیں اور وصول کرسکتے ہیں۔ صحت کے شعبے میں میڈیکل سائنس نے علاج معالجہ میں بے انتہا آسانیاں اور بہتری پیدا کی ہے، مثلاً موتیا کا آپریشن صرف 20 منٹ میں ہوسکتا ہے اور خون کی بند نالیاں باآسانی کھولی جاسکتی ہیں۔ علم کے حصول کے لیے آپ کو یہ سہولت دستیاب ہے کہ ہر طرح کی معلومات نیٹ پر ہر وقت بلا قیمت آپ کی دسترس میں ہیں، کھانے پینے کی اشیا کے تنوع اور اختراع کی ایک مثال یہ ہے کہ صرف وہی آپ کے لیے پندرہ ذائقوں میں دستیاب ہے۔
امارت و غربت کا تفاوت اتنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا میں پیدا کی جانے والی مجموعی آمدنی کا 82 فی صد صرف ایک فی صد امیر لوگوں نے اڑالیا۔ جب کہ صرف 18 فی صد آمدنی دنیا کی 7.6 ارب آبادی کے حصے میں آئی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ارب پتی لوگوں کی دولت میں 2010ء سے چھ گنا اضافہ ہوا ہے جب کہ عام مزدور اور کارکن کی آمدنی صرف 10 فی صد بڑھی ہے۔ بنگلادیش جہاں گارمنٹس تیار کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کم اجرت مزدوری کے باعث اپنے اپنے کارخانے لگائے ہیں اس رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر چار دن میں اتنا کمالیتے ہیں جتنا ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور پوری زندگی میں کماتے ہیں۔ رپورٹ نے تجویز کیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اعلیٰ انتظامیہ کی تنخواہوں اور ان کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز کی آمدنیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتوں کو پالیسیاں بنانا چاہئیں۔ رپورٹ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے 2000 ارب پتی دنیا کی معاشی ترقی اور بہتری کی علامت نہیں ہیں۔
یہ رپورٹ برطانیہ میں قائم آکسفام (Oxfam) ادارے نے جاری کی ہے جو اصل میں دنیا میں مختلف خیراتی اداروں کی کنفیڈریشن ہے اور 1942ء سے غربت کے خاتمے اور عام مزدوروں کی اجرتوں میں اضافے اور مرد و خواتین کارکنوں کی اجرت میں فرق دور کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے نمایاں ممالک پاکستان، انڈیا اور بنگلا دیش غربت اور بدحالی کی فہرست میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں 30 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے ہے یعنی اسے کم از کم ضروری خوراک بھی میسر نہیں۔ تقریباً 2 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، فی کس سالانہ آمدنی تقریباً 16 سو ڈالر ہے جب کہ دوسری طرف نواز شریف، آصف زرداری، میاں محمد منشا، ملک ریاض، صدر الدین ہاشوانی اور عبدالرزاق یعقوب جیسے اربوں ڈالر رکھنے والے دولتمند پاکستان میں موجود ہیں۔ یہی وہ امیر و غریب فرق ہے جسے آکسفام رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی طرح انڈیا بھی دنیا میں آمدنی کے معاملے میں ایک انتہائی غیر متوازن ملک ہے۔ جہاں 10 فی صد اشرافیہ ملک کی قومی آمدنی کے 56 فی صد پر قبضہ کرلیتی ہے، کروڑوں افراد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، لاکھوں افراد کے پاس بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں ہے۔ آبادی کا بڑا حصہ سیوریج کی سروس سے محروم ہے، لاکھوں کسان غربت اور قرضہ واپس کرنے کی سکت سے محروم ہو کر خودکشی کرلیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا کی تیز رفتار معاشی ترقی کے باوجود غربت اور بدحالی میں کمی نہیں آئی ہے۔ بنگلا دیش ترقی کی درجہ بندی کے لحاظ سے پست ترین ملک ہے جہاں ساڑھے سولہ کروڑ کی آبادی میں 6 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہاں کالے دھن کا حجم پورے مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا پچیس فی صد ہے۔
مندرجہ بالا رپورٹ ایک مغربی اور ترقی یافتہ ملک میں قائم ادارے نے جاری کی ہے جس نے دنیا بھر میں موجود غربت اور افلاس کی منظرکشی کی ہے اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ معاشی نظام جو سرمایہ داری کے اصولوں پر چل رہا ہے جس کو منافع خوری، سود خوری اور سٹہ بازی نے بنیادیں فراہم کی ہیں، جس میں آزاد معیشت اور منڈی کی قوتوں کے زریں اصول شامل ہیں وہ انسان کو غربت، تنگدستی اور بدحالی سے آزاد کرانے میں ناکام رہا ہے۔