خالی میخانہ

293

بابا الف کے قلم سے

عرصہ ہوا کتاب زندگی سے فراغت اپنے ہر ہر مفہوم میں خارج ہے۔ بہار، ابر بہار، آتے جاتے موسم، مصروفیت کی دھوپ میں سب گلاب، سب پھول، مرجھائے مرجھائے، سوکھے سوکھے۔ وہ اعلیٰ اور ارفع مقاصد زندگی، جن کی جستجو اور حصول میں زندگی بسر کرنے کا سوچا تھا، لگتا تھا جو محشر میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیں گے، عرصہ ہوا خواب ہوئے۔ وہ مقاصد حیات اب بھی ہر روز نیند سے کچھ پہلے آموجود ہوتے ہیں، دماغ چوتھے آسمان پر پہنچ جاتا ہے، لیکن صبح رزق کی تلاش پھر سڑکوں پر لے آتی ہے۔ حالاں کہ جن افراد خانہ کے لیے یہ تگ و دو ہے ان کی حقیقت معلوم۔ بعد ازمرگ قبر پر ’’دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آئے گی‘‘۔
قبر میں دفن ایک عورت محسوس کرتی ہے کہ کوئی اس کی قبر کھود رہا ہے۔ سوچتی ہے کہ میرے خاوند کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اسے یاد آتا ہے کہ میرے شوہر نے تو کل ہی دوسری شادی کرلی ہے۔ پھر خیال آیا ممکن ہے کوئی قریبی عزیز ہو قبر پر پھول لگانے آیا ہو۔ پھر سوچتی ہے کہ ایسا عزیز کون ہے جو مرنے کے بعد بھی مجھ سے اس درجہ محبت کرتا ہے۔ اسے خیال آتا ہے ہوسکتا ہے کوئی دشمن ہو جو مرنے کے بعد میری لاش کی بے حرمتی کرنا چاہتا ہے لیکن پھر وہ اس خیال کو بھی جھٹک دیتی ہے۔ تمام اندازے ردکردینے کے بعد وہ خود ہی پکارتی ہے ’’میری قبر کون کھود رہا ہے‘‘۔ آواز آتی ہے میڈم میں آپ کا کتا ہوں آپ کے آرام میں خلل ڈالنے پر معافی چاہتا ہوں۔ عورت سوچتی ہے انسان کتنا بے وفا اور کتا کتنا وفادار ہے۔ مرنے کے بعد بھی میری قبر پر آیا ہے۔ عورت یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کتے کی آواز آتی ہے میڈم میں اس علاقے میں روزانہ دوڑتا ہوں۔ اس دوران مجھے بھوک لگتی ہے میں آپ کی قبر پر دراصل اپنی ہڈی چھپانے آیا ہوں تاکہ بھوک محسوس ہو تو ہڈی نکال کر کھا سکوں۔
کراچی میں سردی کم ہی پڑتی ہے لیکن آٹھ دس دن سے جاڑا بہار پر ہے۔ بستر چھوڑنے کو دل نہیں کرتا مگر روزگار کے آزار فجر بعد ہی موٹرسائیکل پر سوار کرا دیتے ہیں۔ اس برس سردی کے ساتھ ہی بخار اور نزلہ زکام کی وبا نے بھی اہل کراچی کا محاصرہ کررکھا ہے۔ بیماری نے اکثر گھروں میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ چلیے اسی بہانے سہی فراغت میسر آجاتی ہے۔ فراغت میسر ہو تو ہمارے نزدیک اس کا ایک ہی استعمال ہے۔ بزم اقبالؔ ۔ اقبال کی ایک فارسی نظم انقلاب کے دوران اہل ایران کے لیے بہت اہم تھی۔ وہ خیال میں کوندے کی طرح لپک جاتی ہے۔
ترجمہ: ’’ایک تنگ و تاریک کمرے کی تنہائی میں مجھ پر سیاست کی ایک رمز آشکار ہوئی جب اونٹ کی آنکھیں اور منہ باندھ دیے جاتے ہیں اور اس کی گردن پر ایک وزنی پٹا ڈال دیا جاتا ہے تو پھر اونٹ اپنے ہی گرد گھومنے لگتا ہے۔ لیکن سمجھتا ہے کہ وہ دیگر اونٹوں کے ساتھ ایک نیا راستہ طے کررہا ہے۔ اسی طرح جب قوم کی آنکھیں بند کردی جاتی ہیں تو وہ ایک مقام پر آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ آگے جارہی ہے راستہ طے کررہی ہے لیکن اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ ایک ہی مقام پر کھڑی اپنے ہی گرد گھوم رہی ہے۔‘‘
ان دنوں پورے ملک میں اہل سیاست کے جلسوں نے ماحول گرم کررکھا ہے۔ کتوں کے بھونکنے پر پطرس نے لکھا تھا: ’’کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آوازسوچنے کے تمام قویٰ معطل کردیتی ہے‘‘۔ سیاست دانوں کے بارے میں یوں کہنا تو مناسب نہیں لیکن عملی طور پر صورت حال یہی ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا سارا زور پنجاب حکومت گرانے پر ہے۔ الیکشن میں چند ماہ رہ گئے ہیں لیکن زور ایسا لگایا جارہا ہے کہ چند ماہ پہلے حکومت گرگئی تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ مشرف کی حکومت تھی تو زور اس بات پر تھا آمریت ختم ہوگئی اور جمہوریت آگئی تو ملک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ چلیے یہ بھی ہوگیا۔ زرداری حکومت آگئی۔ پھر زور دیا جانے لگا زرداری حکومت جائے گی تو عوام کے دلدردور ہوں گے۔ اب یہی بات نواز حکومت کے لیے کہی جارہی ہے۔ عملی تجربہ یہ ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت اچھی حکومت خواب ہی رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو وہ ہے۔ جو غالب نے بیان کی ہے۔
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے
دس سالہ جمہوریت کے بعد بھی بھوک عوام کے گھروں سے نکلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ جام و سبو بھرے ہیں مگر میخانہ خالی ہے۔ غالب کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اہل ہمت کا نہ ہونا ہے۔ اہل ہمت ہوں بھی تو اس نظام کے داخلی تضادات کسی بھی حکومت کو دل جمعی سے اپنے منصوبوں کو بروئے کار نہیں لانے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی سطح پر یہ بحث جاری ہے کہ اس پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اس نظام کے تحت حکمرانی کے چیلنج پر کیسے پورا اترا جائے۔
اچھی حکمرانی عمومی بات نہیں ہے بلکہ یہ مربوط عوامل کا نتیجہ ہے۔ جس کے لیے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوشل ازم سرمایہ داریت اور اس سے وابستہ جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مغرب میں عوام کو مراعات اور سہولتیں دینے کا فلاحی ریاست کا تصور اور جمہوری آزادیاں محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں عوام سے مراعات واپس لیکر ان کے بوجھ میں اضافہ کرر ہی ہیں۔ فوجی آمریتوں میں بھی یہی سرمایہ دارانہ نظام کام کرتا ہے۔ پاکستان میں اسلام کے دلدادہ جنرل ضیاء الحق ہوں یا سیکولرازم میں پناہ ڈھونڈتے پرویز مشرف۔ پیپلز پارٹی ہو یا نوازشریف کی مسلم لیگ یا تحریک انصاف۔ تضادات کے باوجود سب نے اسی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہی کام کیا ہے اور ناکام رہے ہیں۔ انسان کی آئندہ سرنوشت میں یہ انداز حکمرانی اور نظام انسانیت پر ایک تباہ کن ضرب لگانے کے سوا کوئی اور کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔
کئی صدیوں سے مغرب سیاسی نظام کا سرچشمہ ہے۔ سولہویں صدی کو ہم مغرب اور ایک لحاظ سے تاریخ انسانی کے نئے دور کا آغاز سمجھیں تو آج چار صدیاں گزرنے کے بعد اس نظام میں خستگی اور داخلی کمزوری کے آثار واضح ہیں۔ سیاسی نظام قابل حکومتیں فراہم نہیں کررہا ہے۔ نااہلی، بجٹ خسارہ اور نفس پرستی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ہر جگہ جمہوریت غیر حقیقت پسندانہ عوامی توقعات میں اضافہ کررہی ہے جس سے پیدا متناقص مطالبات ریاست اور حکومت کو افراتفری کا شکار کررہے ہیں۔ حکومتیں دیر پا منصوبہ بندی کے بغیر بے قاعدگی اور محض الیکشن میں کامیابی کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں۔
اقبال نے کہا تھا: ’’جہاں کہیں روشنی ہے وہ رسالت مآب ؐ کے طفیل ہے یا آپ کی تلاش میں ہے باقی سب گمراہی ہے‘‘۔ کمیونزم کو روس میں پناہ نہ ملی سرمایہ دارانہ نظام مغرب میں قابل نفرت صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام حکومت ہے۔ اعلیٰ طرز حکمرانی اور اقتدار کے لیے دنیا کو بالآخر اسلام کی طرف آنا ہی ہوگا۔ ورنہ لوگوں کی ایک قلیل تعداد کے جام و سبو تو بھرے ہوں گے لیکن عوام کا میخانہ خالی ہی رہے گا۔