میاں منیر احمد
معروف دانشور کالم نگار اور پنجابی کے صاحبِ طرز، شاعر، منیر احمد قریشی منو بھائی دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ 84 برس کی عمر میں دنیا سے کنارہ کرنے والے اس عظیم انسان نے درحقیقت اتنے دلکشا نقش چھوڑے ہیں کہ انہیں ختم کرنا ممکن ہی نہیں۔ وزیر آباد چھری کانٹوں کے لیے مشہور شہر ہے، مولانا ظفر علی خان اور منو بھائی دونوں کا تعلق اسی شہر سے تھا اور دونوں ہی ظالم سماج کے لیے چھری کانٹے تھے۔ منو بھائی اردو صحافت کا معتبر نام ہیں ایک زمانہ تھا ان کا کالم حاکمانِ وقت پر تازیانے کی صورت برستا تھا وہ عہدہ، مراعات سے دور رہے منو بھائی جہاں بیٹھے تھے، وہیں بیٹھے رہے۔ ستائش کی تمنا کی اور نہ صلے کے پیچھے بھاگے، مترجم کی حیثیت سے صحافت میں قدم رکھا، حساس طبیعت کے مالک تھے، ایک روز ایسا ہوا کہ ایک خاتون دفتر آئیں اور اپنی گم شدہ بیٹی کی تلاش کے لیے اشتہار دینا چاہتی تھیں منو بھائی ہی کو اس اشتہار کی عبارت لکھنا تھی، وہ خاتون اپنی بیٹی کی نشانی بتانے لگی تو کہا کہ نیلے رنگ کی قمیص اور سفید شلوار پہنے ہوئے ہے لیکن یہ شلوار بھی اب میلی ہوگئی ہوگی، اس خاتون کا جملہ سننا تھا کہ منو بھائی، جیسے سکتے میں آگئے، بس یہیں سے وہ کالم نگار بنے۔
ملک کے بائیں بازو کی قیادت اور سیاسی کارکن، سماجی حلقوں سے وابستہ افراد اور بائیں بازو کے شاعر اور ادیب سب ان کے حلقہ یاراں میں شامل تھے مگر ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم والی کوئی بات اس حلقہ میں شامل نہیں ہے۔ منو بھائی، بات کرتے ہوئے ہکلاتے تھے، اس بارے میں وہ خود بتاتے ہیں کہ ایک بار گھر میں جھگڑا ہوا اور ان کے والد نے والدہ کو تھپڑ دے مارا، اسی لمحے خوف سے منو بھائی کی زبان بند ہوگئی اور بعد میں آہستہ آہستہ بولنے کے قابل ہوئے لیکن آخری عمر تک وہ بات کرتے ہوئے ہکلاتے رہے۔ مزاحمتی نظمیں لکھی ہیں اور مزاحمتی ادب میں ان کا ایک نام ہے ضیاء الحق کے دور میں خوب لکھتے رہے اس دور میں حبیب جالب کے ساتھ ملنے سے لوگ کتراتے تھے تاہم منو بھائی نے کبھی پروا نہیں کی تھی منو بھائی ایک سوشل تھنکر اور وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لکھنے والے کالم نگار تھے۔ ایک بار انہوں نے کالم لکھا، جس کا عنوان تھا، ’’جس کا ملتان مضبوط ہے، اس کا اسلام آباد مضبوط ہے‘‘۔ اس بات کا پس منظر فخر امام کا واقعہ تھا جس میں وہ ضلع کونسل کی چیئرمین شپ کا انتخاب ہار گئے تھے اور انہوں نے وفاقی وزیر بلدیاتی کی حیثیت سے اس شکست کے بعد استعفا دے دیا تھا۔ منو بھائی کا یہ جملہ بہت مقبول ہوا کہنا وہ یہ چاہتے تھے کہ جو اپنے گھر میں مضبوط نہیں، وہ باہر بھی کمزور رہے گا وہ اس بات کو اقوامِ عالم تک لے گئے کہ دنیا میں صرف وہی قومیں اپنا مقام پاتی ہیں جو خود مضبوط ہوتی ہیں۔
محمد حنیف رامے کی ادارت میں یہ اخبار 7جولائی 1970ء کو شائع ہوا تھا منو بھائی نے یہاں کالم بھی شروع کیا اور گریبان کا عنون چنا اور آغاز شعر سے کیا جس کا دوسرا مصرع ہے، ’’ڈھیر لگ جائیں گے، بستی میں گریبانوں کے‘‘۔
منو بھائی ذہین برجستہ بات کرنے والے انسان تھے اور انہوں نے اپنے کالموں میں انسانی مسائل و حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی بہت لکھا جب کہ ترقی پسندی کے حوالے سے بھی ان کی تحریریں زبردست تھیں منو بھائی کا اسلوب تحریر بھی اپنا تھا وہ رپورٹنگ روم میں بیٹھ کر نہ صرف کالم لکھ لیتے بلکہ بعض ٹی۔ وی سیریل کی اقساط بھی یہیں تحریر کیں۔ سونا چاندی ان کا لکھا ہوا ڈاراما تھا منو بھائی روزنامہ امروز اور روزنامہ مساوات میں بھی رہے ٹریڈ یونین بھی کی لیکن ذاتی تعلقات کبھی خراب نہیں ہونے دیے بلکہ اپنے مخالفین کے لیے ان کے دل میں زیادہ عزت ہوئی تھی منو بھائی نے ٹریڈیونین میں بھرپور حصہ لیا کرتے تھے 1972۔73ء میں وہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ بھٹو دور میں فیصلہ ہوا کہ فلم سنسر بورڈ میں رکنیت اداروں کو دی جائے، چناں چہ قومی اسمبلی، پولیس، فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن، فلم ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن، محکمہ تعلیم اور اس کے ساتھ پنجاب سنسر بورڈ میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کو نمائندگی دی گئی، متعلقہ وزارت کی طرف سے نامزدگی کے لیے پی۔ یو۔ جے کو خط لکھا گیا جو صدر کے نام تھا، بہت لوگ خواہش مند تھے منو بھائی نے یونین کے نمائندہ کے طور پر سنسر بورڈ کا رکن نامزد کیا تھا جب زیادہ بیمار ہوئے اور احباب تیمار داری کرتے تو کہتے تھے کہ اسی کا ہندسہ پار کرلیا ہے بس اب چل چلاؤ ہے۔
منو بھائی کے انتقال کی خبر صحافتی انداز کے مطابق ’’جنگل کی آگ‘‘ کی طرح پھیل گئی تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھ گیا اور دوست اپنے ساتھ ان کی تصویر کو بھی پوسٹ کرتے رہے وہ تھے ہی ایسے ہر وقت مسکراتے رہتے تھے اور سب کے ساتھ پیار سے ملتے تھے، صحافتی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں ان کا احترام موجود ہے اور وہ بڑی حد تک ’’غیر متنازع‘‘ رہے ہیں، منو بھائی یوں بھی بڑے مضبوط اور پختہ ذہن کے انسان تھے کہ اب وہ جس مرض سے اللہ کو پیارے ہوئے وہ نتیجہ بھی اس ’’برین ہیمبرج‘‘ کا تھا جس سے وہ کچھ عرصہ پہلے دوچار ہوئے اور وہ ان چند خوش نصیبوں میں سے تھے جن کے نہ صرف آپریشن کامیاب ہوئے بلکہ صحت کے بعد ان کی ذہنی صلاحیت بھی متاثر نہ ہوئی اور انہوں نے تحریر کا رشتہ برقرار رکھا، تقریبات میں شرکت کرتے اور دلچسپی لیتے تھے لاہور پریس کلب کے عہدیداروں نے ان کی 84ویں سالگرہ کی تقریب منائی اور کلب میں کیک کاٹا۔