عارف بہار
کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ کے ذریعے بھارتی فوجی کی سفاکی کا تازہ شکار نکیال آزادکشمیر کی چھ ماہ کی معصوم ماہ نور ہے۔ بھارتی فوج کی فائرنگ سے زخمی اس بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں جنہیں دیکھ کر سنگ دل بھی پگھل جاتے ہیں۔ بچی کا چہرہ چھروں سے زخمی ہے اور اس کے ہاتھ کی انگلیاں کٹ چکی ہیں اور ان سے خون رواں ہے۔ بعد میں ماہ نور کا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالنا ہی علاج ٹھیرا۔ یہ ننھی بچی جب اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ بڑی ہوگی تو وہ سیکولر جمہوریہ کے دعوؤں پر ہزار بار لعنت بھیجے گی۔ بھارت کنٹرول لائن پر سویلین اور فوجی کی تفریق سے بالاتر ہو کر گولہ باری کرتا ہے۔ اس کے لیے سویلین اور فوجی کی تفریق اس لیے بے معنی ہوتی ہے کہ نشانہ مسلمان ہی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر کی مسلمان آبادی پاکستان کی مجبوری ہے۔ پاک فوج کو جوابی کارروائی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی مسلمان آبادی کے تحفظ اور سلامتی کا قدم قدم پر لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باجود پاک فوج کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری پر بھرپور جوابی کارروائی کررہی ہے۔ خود بھارتی چینل بھی اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ ننھی ماہ نور کا زخمی چہرہ اور کٹا ہوا ہاتھ بھارت کے خلاف ایک فرد جرم کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کو جو ان دنوں اپنی جرات اظہار کے لیے مشہور ہیں نکیال کی ننھی ماہ نور کی تصویر لہرا کر اقوام عالم اور بھارتی نمائندے سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ چھ ماہ کی بچی بھی لشکر طیبہ اور جیش محمد کی فدائی ہے جس کے خلاف بھارت نے کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے؟ کیا یہ بچی دراندازی کر رہی تھی کہ جسے بھارتی فوج نے گولہ باری کا نشانہ بنایا؟ بھارت کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔
ننھی ماہ نور کی یہ حالت بھارت کی درندگی اور ننگ انسانیت ہونے کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت ہے۔ بھارت طاقت کے نشے میں دھت ہو کر پاکستان اور کشمیری عوام کے خلاف معاندانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کا نشہ بڑھانے اور چڑھانے میں امریکا اور اسرائیل جیسے ملکوں کا ہاتھ بھی ہے۔ جو بھارت کو ہلہ شیری دے کر خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بھی دہلی میں یہ بات کرکے بھارت کے حوصلے بڑھائے ہیں کہ بھارت کو کنٹرول لائن پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حق ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے تسلیم کردہ اسی حق کا استعمال بھارتی فوج نے کئی معصوم جانیں لے کر کیا اور چھ ماہ کی شیر خوار ماہ نور بھی اس حق کا شکار ہوئی۔ بھارت کی اس جارحیت اور ظلم کو بیرونی دنیا میں پوری قوت سے اُجاگر کرنا چاہیے اور کنٹرول لائن کے عوام کو ہر ممکن حد تک تحفظ اور سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔
کنٹرول لائن پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد آزادکشمیر کابینہ کی طرف سے کنٹرول لائن کے متاثرین کے امدادی پیکیج پر نظرثانی کے لیے قائم کابینہ کی سب کمیٹی نے اپنی حتمی سفارشات پیش کر دی ہیں۔ چودھری محمد عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے پیکیج پر نظرثانی اور عوامی مطالبات اور متاثرین کی مشکلات کو ہر ممکن حد تک اپنی سفارشات میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ جس کے مطابق متاثرین کے معاوضے میں اضافہ، طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ٹھوس اور ہنگامی اقدامات، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایمبولنس سروس اور سرجن کی موجودگی، بلڈ بینک کا قیام فائرنگ سے متاثرہ اضلاع میں متاثرین کی فوری امداد کے فنڈز کا قیام اور آبادی کے انخلا جیسے اقدامات شامل ہیں۔
آزادکشمیر کی کنٹرول لائن اس وقت عملی طور پر میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔ بھارت کی بلا اشتعال گولہ باری سے آئے دن معصوم اور بے گناہ شہری شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ بے زبان مویشی بھی گولہ باری کی زد میں آرہے ہیں۔ خود بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ رواں سال جنوری میں اب تک 134سے زیادہ مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسی اخبار نے ایک اور رپورٹ میں لکھا تھا کہ بھارت کی طرف سے ایک ہفتے کے دوران آٹھ ہزار سے زیادہ گولے داغے گئے۔ بظاہر تو بھارتی فوجی یہ گولہ باری پاکستان کی فوجی چوکیوں پر کرتے ہیں مگر ان ہزاروں گولیوں کا اصل شکار آزادکشمیر کے عام شہری بنتے ہیں۔ نکیال میں ایک چھ ماہ کی بچی ماہ نور کا چھروں سے چھلنی چہرہ اور کٹا ہوا ہاتھ بھارتی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیکس کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہے۔ نکیال میں پہلے بھی ایک بار یہ ڈراما کیا جا چکا ہے۔ پاک فوج بھارتی فوج کو مسلسل چیلنج کر رہی ہے کہ اگر ہمت ہے تو کنٹرول لائن عبور کرکے دکھاؤ۔ اس کے جواب میں بھارت کی طرف آئیں بائیں شائیں کے رویے کا مظاہرہ کیا جا تا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گویٹرس بھی کنٹرول لائن کی صورت حال پر حال ہی تشویش
کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ یہ صورت حال بتا رہی ہے کہ کنٹرول لائن کے عوام کے لیے اچھے دن ابھی بہت دور ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل حل ہونے کے بجائے اُلجھتے ہی جا رہے ہیں۔ جن سے کشیدگی میں اضافہ فطری ہے۔ اس اضافے کا نتیجہ سرحدی جھڑپوں اور گولہ باری کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس جنگی کیفیت میں کنٹرول لائن کے عوام پاک فوج کی سیکنڈ ڈیفنس لائن ہیں۔ ان لوگوں کی گھروں میں موجودگی فوجی جوانوں کے لیے ایک اخلاقی سہارا ہے۔ کنٹرول لائن کے قریب بسنے والوں کا عزم جواں ہے اور وہ دو عشرے سے دشمن کے مقابل اپنے گھروں اور کھیتوں وکھلیانوں میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس لیے کنٹرول لائن کے عوام کا مطمئن اور آسودہ رہنا بہت ضروری ہے۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد شاید تنہا آزادکشمیر حکومت کے بس میں نہ ہو اس لیے وفاقی حکومت اور عسکری اداروں کو اس کام میں آزادکشمیر حکومت کی بھرپور معاونت کرنی چاہیے۔