جج کا رتبہ!

391

عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان میاں نثار ثاقب آپ کے اس فرمان سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مقننہ قانون بناتی ہے اور عدالتیں اس قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے اور درد قولنج بن کر ایسے کرب اور اذیت میں مبتلا کردیتا ہے جس کا علاج کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوتا اور اگر علاج موجود ہو تب بھی معالج بے بسی کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ چیف صاحب! کیا آپ یہ بتانا گوارا فرمائیں گے کہ مقننہ نے کب کہا ہے کہ جعلی مقدمات کی سماعت کی جائے؟۔ مقننہ نے کب کہا ہے کہ سائلین سے پیشی پیشی کھیلو؟ مقننہ نے کب ہدایت جاری کی ہے کہ تاخیری حربوں سے کئی نسلوں کو ذہنی اذیت اور افلاس کے جہنم کا ایندھن بناؤ؟۔
عزت مآب چیف صاحب! انصاف کی فوری فراہمی ممکن ہے مگر عدالت کی مسند پر جلوہ افروز لوگ انصاف دے کر وکلا کی ناراضی اور ان کے ردعمل سے ڈرتے ہیں۔ آپ کا یہ فرمان سنہرے حرفوں سے لکھ کر عدالتوں کے ماتھے کا جھومر بننے کے قابل ہے کہ جج کا عہدہ ملازمت نہیں سعادت ہے، بہت بڑی سعادت ہے جو کسی کسی کا مقسوم ٹھیرتی ہے۔ ہمارے خیال میں جج کا عہدہ سعادت سے بھی بہت آگے کا رتبہ ہے۔ جج اللہ کا نائب ہوتا ہے، خدائے بزرگ برتر کی نیابت کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ اللہ کے بندوں کی تقدیر میں ردوبدل کا اختیار رکھتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اکثر جج صاحبان اللہ کی نیابت کے بجائے شیطان کی جانشینی کو پسند کرتے ہیں کیوں کہ خدا نے انسان کو خود مختاری عطا کی ہے۔ اللہ نے انسان کو خسارہ پسند کرنے والا اسی لیے کہا ہے کہ خسارے کے سودے کا انتخاب کرتا ہے۔ آپ کا فرمان ہے کہ سول کورٹ ایک ماہ میں سیشن کورٹ دو ماہ اور ہائی کورٹ تین ماہ میں مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔ بہاولپور ہائی کورٹ میں ایک جعلی مقدمہ 2014ء سے زیر سماعت ہے مگر اسے زیر سماعت کہنا بھی عدل و انصاف کی توہین ہے کیوں کہ 2014ء سے تادم تحریر اس مقدمے کی سماعت ہی نہیں ہوئی ہے۔ کبھی پیشی دی جاتی ہے، کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے اور کبھی پیشی ملتوی کردی جاتی ہے، جو پیشی ملتوی کردی جائے اس کی فائل اندھے کنویں میں پھینک دی جاتی ہے کیوں کہ جسٹس صاحبان کا فرمان ہے کہ وہی مقدمات ان کے حضور پیش کیے جائیں جن کی تاریخ انہوں نے اپنے دست مبارک سے رقم کی ہے۔ یہی حال ان مقدمات کا ہوتا ہے جو کسی جسٹس کی رخصت کی وجہ سے زیر سماعت نہیں آتے حالاں کہ اصولاً ایسے مقدمات کی سماعت جسٹس صاحب کے حاضر ہونے پر ہونا چاہیے مگر جہاں اصول اور ضابطے بے معنی ہوں وہاں پر لفظ بے معنی ہوتا ہے۔
عادل اعظم نے خود سوچنے کے بجائے قوم کو یہ دعوت فکر دی ہے کہ وہ سوچے کہ موجودہ نظام عدل ٹھیک ہے یا نہیں۔ مہذب ممالک میں لوگ عدالت جانے سے ڈرتے ہیں سو، اپنے تنازعات اور مسائل کا حل خود ہی ڈھونڈ لیتے ہیں، ہمارے ہاں معاملہ ہی اُلٹ ہے کوئی مظلوم عدالت جانے کی بات کرے تو ظالم خوش ہوجاتا ہے کہ معاملہ لٹک گیا۔چیف صاحب! نے جج صاحبان کو پیغام دیا ہے کہ وہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں، بہت سے مقدمات جب عدالت عظمیٰ میں آتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ جسے مجرم قرار دیا گیا ہے وہ بے گناہ ہے اور اس نے کئی برس جیل میں گزارے ہیں۔ حالاں کہ وہ بے قصور تھا۔ سوال یہ ہے کہ جو عدالتیں خود ہی ظلم و ستم کو فروغ دیتی ہیں وہ مظلوموں کی داد رسی کیسے کریں گی۔ عدل پرور! عادل اعظم! ذاتی مفادات یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر قانون کو موم کی ناک بنانے والوں کو عبرت کا نشان بنادیا جائے تو کوئی بھی جج قانون کو مذاق نہ بنائے، قانون کے خلاف فیصلہ نہ دیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جج صاحبان قانون کے بجائے اپنی مرضی کے فیصلے دیتے ہیں اور ان سے کوئی جواب طلب نہیں کیا جاتا۔