دادا میاں کے چشمے سے ……..

1313

ایک بار ایک کتاب میں ایک قصہ دیکھا کہ ایک چندے آفتاب چندے ماہتاب دلھن کے ساتھ ایک چندے کولتار کالا بھجنگ دولھا سڑک پر چلا جارہاتھا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک مَن چلے لونڈے نے آوازہ کسا:
پہلوئے حور میں لنگور خدا کی قدرت!
زاغ کی چونچ میں انگور خدا کی قدرت!
دولھا میاں کو زاغ (یعنی کوے) کا مطلب معلوم ہو یا نہ معلوم ہو، مگر لنگور کا مطلب ضرور معلوم تھا۔ سو اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ جاؤ (یہاں ہمیں ’ تاؤ‘ کا استعمال بالکل فضول لگتا ہے، اگر تاؤ نہ دیکھا ہوتا تو اُنہیں تاؤ کیسے آتا؟) خیر، تاؤ میں آکر لڑکے کو جا پکڑااور پکڑکر پیٹنا شروع کردیا۔ جب اُسے مار مارکر اُلّو بنا چکے اور خود اُلو کی طرح ہُوٹنے لگے تو دولھن نے مداخلت کی اور کہا:
’’اب بس بھی کیجیے۔ آپ نے تو مار مارکر بچارے کا بھرتا ہی بنا دیا‘‘۔
انہوں نے خشمگیں بلکہ ’خصمگیں‘ نگاہوں سے بیگم کو دیکھا اور مزید ہانپتے ہوئے کہا:
’’بیگم تُم سمجھ نہیں رہی ہو۔ یہ گدھے کا بچہ تمہیں لنگور کہہ رہا تھا‘‘۔
لنگور کی صورت (چشمہ لگانے کے بعد) شاید کسی اور جانور جیسیی ہوجاتی ہوگی۔ بعض لوگ اپنے دیدۂ بینا (یانابینا) پر گول گول شیشوں کا چشمہ لگا کر گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے اپنے تئیں یورپ کا ایک دانش مند پرندہ بنے چلے آتے ہیں اور فلسفی کہلاتے ہیں۔ ہمارے ملیر توسیعی کالونی، کراچی (المعروف بہ کھوکھراپار) کے ایک شاعر نے بھی ایک فلسفی کو دیکھ کر فرمایا تھا:
چشم پر چشمہ لگایا تاکہ سوجھے دور کی
مفت میں اندھے ہوئے صورت بنی لنگور کی
قصہ مختصر یہ کہ علما و فضلا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدمی اگر چشم پر چشمہ لگالے تو آدمی جیسی صورت نہیں رہتی۔ ممتاز شاعر، محقق اور مترجم شہزاد احمد مرحوم کی حاضر جوابی کا ایک قصہ مشہورہے کہ شہزاد احمد جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو ضعف بصارت کی وجہ سے اُنہیں بھی چشمہ لگانا پڑگیا۔ جب وہ پہلے دن گول گول شیشوں والانظر کا چشمہ لگا کر کالج آئے تو اُن کے اُستاد صوفی غلام مصطفی تبسم مرحوم اُنہیں دیکھ کر ہنس پڑے۔ کہنے لگے:
’’اوئے! یہ کیا پہن کر آگئے ہو؟ بالکل بِجّو لگ رہے ہو‘‘۔
سعادت مند شاگرد نے اپنی گستاخی کی پیشگی معافی مانگتے ہوئے کہا:
’’سر! گستاخی معاف۔ نظرکمزور ہوگئی ہے۔ اگر یہ نہ پہنوں تو آپ مجھے بِجّو لگنے لگتے ہیں‘‘۔
اس قصے کا ذکر مشتاق احمد یوسفی نے بھی کیا ہے، مگر اور طرح سے۔ ایک زمانے میں چشمہ ایک طرح سے پڑھے لکھے ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ عام تصور یہی تھا کہ لوگ پڑھ پڑھ کر ’بھاویں‘ ہو جاتے ہیں تو چشمہ لگا لیتے ہیں۔ زیادہ پڑھ لکھ جائیں تو بوتل کے پیندے جتنے موٹے شیشوں کی عینک لگا تے ہیں اور دانشور کہلاتے ہیں۔ اسی خیال کو رئیس فروغ مرحوم نے بچوں کے لیے کہی جانے والی ایک سہل ممتنع قسم کی آزاد نظم میں اور مکالماتی انداز میں یوں باندھا تھا:
’’ابو کے ابو ۔۔۔ دادا میاں!
اتنے بڑے؟
جی ہاں، جی ہاں!
دادا میاں کے چشمے سے حرف بڑے ہوجاتے ہیں،
اُن سے مل کر لوگ بہت لکھے پڑھے ہوجاتے ہیں!‘‘
مگر اب تو کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ٹی وی چینلوں اور بناسپتی گھی کی بدولت خود پوتے میاں بھی پیدا ہوتے ہی اتنی بڑی عینک لگا لیتے ہیں کہ چھوٹے میاں بڑے بڑے پروفیسروں کو مات کرتے نظر آتے ہیں۔
بچوں کا ذکر آیا تو ہمیں بچپن کی بوجھی ہوئی ایک پہیلی بھی یاد آگئی۔ یہ پہیلی پڑ ھ کر بڑی ہنسی آتی تھی۔۔۔ بچپن کی بے ساختہ اور کھلکھلاتی ہوئی ہنسی:
ایسا کون ہے وہ شیطان؟
جو بیٹھے ناک پہ، پکڑے کان!
بچپن میں تو یہ شیطان ہمیں صرف اپنے ہیڈ ماسٹر صاحب کے کان کترتا نظر آتا تھا۔ مگر اب کوچہ و بازار میں نکل جائیے تو یہی شیطان قریب قریب ہر انسان کی ناک پر بیٹھا ہوا اُس کے کان پکڑکر دُورکہیں لیے جارہا ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی وقت ایسا بھی رہا ہوگا جب دُنیا میں کسی بھی شخص کی چشم پر چشمہ نہ تھا۔ یہ وقت وہ تھا جب لوگوں کی نظریں دیوار پر چلتی ہوئی اکیلی چیونٹی بھی دیکھ لیا کرتی تھیں۔ اکبرؔ کا خیال تھا کہ دُنیا میں کم نگاہی بھی انگریزی استعمار کی لائی ہوئی ہے۔ چناں چہ اپنی نظر کی کمزوری کے اسباب یوں بتایا کرتے تھے:
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ چلتا ہے، آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دُہائی ہے
شاہ ایڈورڈ کے دیس کا ایک شاعر ہومر نابینا ہوگیا تھا۔ ایک روز ہم نے عینک بنانے والی ایک کمپنی کا ایک اشتہار پڑھا۔ اشتہار کی سُرخی کچھ یوں تھی:
’’ہومر کیوں نابینا ہوگیا تھا؟‘‘
متن میں اِس کا جواب یوں درج تھا:
’’کیوں کہ اُس وقت عینک ایجاد نہیں ہوئی تھی‘‘۔
خدا معلوم کہ مشتہرین ہومر کے اندھے پن کا ماتم کرنا چاہتے تھے یا عصر جدید کے ’ہومروں‘ کو یہ تلقین کرنا چاہتے تھے کہ:
’’کم ازکم تم تو اندھے نہ بنو۔ اندھے بننے کے بجائے، ہماری کمپنی کی بنائی ہوئی عینکیں لگا لگا کر ’عینکو‘ یا ’چشماٹُو‘ بن جاؤ۔ اور اندھی شاعری کی جگہ معنک شاعری کیا کرو‘‘۔
عینک ایجاد ہوئی تو طرح طرح کی عینکوں کا رواج ہوگیا۔ اب شاعری ہوکہ ادب۔۔۔ صحافت ہوکہ سیاست۔۔۔ جس شعبے پر نظر کیجیے اور جسے دیکھیے وہ اپنے اپنے تعصب کی عینک لگائے پھر رہا ہے۔ ایسا ہر ’عینکو‘ کچھ لوگوں کو قریب کی عینک سے دیکھتا ہے اور کچھ لوگوں کو دُور کی عینک سے۔