ریاست کی سوچ ہے کیا؟

368

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہاہے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد کے لیے ریاست کو اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے عملی جد وجہد کرنا ہوگی۔ اس ملک میں مزدوروں پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے کہاکہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں انہیں مستقل کیا جائے۔ لیکن چیئرمین سینیٹ سے کئی سوالات ہیں۔ کیا ان کا مقصد صرف ان عدالتی فیصلوں پر عمل کرانا ہے جو کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے ہیں۔ وہ سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ اور دیگر محکموں میں اعلیٰ افسران کے تقرر کے وقت عدالتی احکامات نظر انداز کرنے کو بھول گئے یا صرف نظر کرگئے۔ بات صرف سندھ حکومت کے ایک فیصلے کی نہیں ہے پیپلزپارٹی جس سے ان کا تعلق ہے اس نے عدالتوں کو کب گھاس ڈالی ہے۔ وہ تو بھٹو کے مقدمے کے پیچھے پڑے رہے اور اسے عدالتی قتل قرار دے کرکے چھوڑا ہے۔ رضا ربانی صاحب نے مزدوروں پر دہشت گردی کے مقدمات بنانے کا شکوہ کیا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے اس ملک میں دہشت گردوں کے سوا ہر طبقے پر دہشت گردی کی دفعات لگائی جارہی ہیں۔ لیکن میاں صاحب کو طلبہ کے حوالے سے بھی بات کرنی چاہیے تھی۔ جامعہ پنجاب میں حکومت پنجاب کے مہمان بلوچ قوم پرست طلبہ اور ان کے بیرونی دوستوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے فیسٹیول پر حملہ کیا اور احتجاج کرنے پر جمعیت کے طلبہ کو گرفتار کرلیا۔ اس ملک میں مولوی، طالب علم، عام شہری اور غریب سب کے خلاف محض شبہے پر دہشت گردی کی دفعات لگادی جاتی ہیں لیکن یہ دفعات اس وقت دفع ہوجاتی ہیں جب معاملہ میئر کراچی وسیم اختر، پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال، متحدہ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر ارکان اسمبلی اور وزرا کا ہو۔ ایسے وقت پر یہ دفعات کہاں ہوتی ہیں۔ رضا ربانی صاحب نے ریاست کو اپنی سوچ بدلنے کا م شورہ دیا ہے اس سے ان کی کیا مراد ہے۔ وہ ریاست کو سوچ بدلنے کا مشورہ کیوں دے رہے ہیں۔ خرابی تو حکمرانوں میں ہے۔ وہ خود اپنی سوچ بدلیں گے تو ریاست کی سوچ بھی بدلے گی۔ حکمرانی کرتے وقت سوچ کچھ اور ہوتی ہے اور حکومت سے باہر نکل کر سوچ کچھ اور بن جاتی ہے، یہ دو عملی یا تضاد بھی حکمرانوں کے حصے ہی میں آتا ہے کہ جب کوئی سیکولر یا بے دین شخض جرم کرے تو اسے ہر طرح سے ریلیف دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے اس کام میں میڈیا میں موجود روشن خیال بھی لگ جاتے ہیں جب کہ اگر کسی دینی مدرسے کے طالب علم یا ڈاڑھی والے کا نام کسی جرم میں لیا جائے تو حکمران اور میڈیا اسے چند گھنٹوں میں پھانسی چڑھانے کے در پے ہوتے ہیں۔ میاں رضا ربانی صاحب اس تضاد کا بھی نوٹس لیں۔ ریاست تو حکومت، مقننہ اور عدلیہ پر مشتمل ہوتی ہے اور پریس اس کا چوتھا ستون ہوتا ہے۔ ان ہی کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔