بے ہودگی کا فروغ، حکمراں بری الذمہ نہیں

470

ایف آئی اے نے انٹرپول کی نشاندہی پر جھنگ میں چھاپامار کر بچوں کی نازیبا ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والے شخص کو گرفتار کیا ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی کی کارروائی ہے لیکن اس کارروائی کا وقت اور ایف آئی اے کا حرکت میں آنا ملک میں موجود ہلچل سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رکھتا ہے۔ اتفاق سے جس روز صبح کو چیف جسٹس پاکستان نے تحقیقاتی کمیشن بنانے پر پابندی لگائی، ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود سے ان کے مشہور پروگرام میں لگائے گئے الزامات اور دعوؤں کا ثبوت طلب کیا اسی دن عدالت ہی نے نئی جے آئی ٹی بنادی اور شام کو جھنگ میں ایف آئی اے نے کارروائی کردی۔ نئی جے آئی ٹی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں بنائی اور اسی شام کو جھنگ میں کارروائی ہوگئی۔ معلوم نہیں کہ اس کارروائی کا ڈاکٹر شا ہد مسعود کے دعوؤں سے کوئی تعلق ہے یا نہیں لیکن یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ ملک میں بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے اس کی ویڈیوز بناکر انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ لاہور میں بچوں کو انٹرنیٹ کیفے میں فحش فلمیں دکھانے والے 8 کیفے مالکان بھی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات سے قطع نظر حکمرانوں سے سوال ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں اس ملک میں کیا ہورہاہے، کیا اس کی ذمے داری حکمرانوں پر نہیں ہے؟۔ جو بیج برسہا برس سے بویاجا رہاتھا وہ اب گھناؤنا درخت بن کر اپنے زہر اور کانٹوں سے معاشرے کو تباہ و برباد کررہاہے۔ سرکاری سرپرستی میں ملک میں میڈیا کے ذریعے بے ہودگی کا پرچار ہوتا ہے۔ اسے تفریح کا نام دیا جاتا ہے، کوئی اس پر اعتراض کرے تو کہا جاتا ہے کہ آپ کو پسند نہیں تو چینل تبدیل کرلیں۔ لیکن چینل تبدیل کرکے جائیں کہاں؟ ہر چینل ایک سے بڑھ کر ایک بے ہودگی پر اترا ہوا ہے۔ پہلے کھلے عام بھارتی فلمیں اور ڈرامے دکھائے جاتے تھے، پھر ایک منصوبے کے تحت بھارتی ڈراموں اور فلموں پر پابندی لگائی گئی جس کا مقصد بھارتی فلموں پر پابندی نہیں تھا بلکہ ترکی کے سیکولر طبقے کے بنائے ہوئے دس پندرہ برس پرانے ڈراموں کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا۔ پھر ترکی کے ڈراموں اور چینلوں کی بھرمار ہوئی تاریخ کو مسخ کیا گیا اس کے بعد وہ سارا کام پاکستان کے چینلوں نے سنبھال لیا جو بھارتی، ترک اور مغربی ممالک کے ٹی وی چینلز کرسکتے تھے۔ ہر ٹی وی پر بیک وقت خاندانی نظام کے خلاف مہم، میاں بیوی کے تعلقات میں خرابی، ایک کی بیوی سے دوسرے کے شوہر کے تعلقات، طلاق، ناجائز اولادوں اور معاشقوں سے بھرے پڑے ہیں۔ حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ سب نے ان چیزوں سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ان کے طبقے میں خواتین جب پریس کانفرنس کے لیے آتی ہیں تو گمان ہوتا ہے کہ فیشن شو میں آئی ہیں۔ یہی کلچر مخالف سیاست دانوں نے اپنے دھرنوں میں اپنایا بلکہ متعارف کرایا۔ ہر چینل پر کسی صابن کا ایوارڈتو کبھی گانا گانے کے مقابلے، کبھی ملک بھر میں ٹیلنٹ کی تلاش، بے ہنگم موسیقی، بے ہودہ لباس دکھایا جارہاتھا اور حکمران سیاسی اختلاف پر ٹی وی چینلز بند کرارہے تھے۔ جب سارا سارا دن یہی بے ہودگی ٹی وی، فلموں، ڈراموں میں دکھائی جاتی رہے گی تو دینی اور اخلاقی تعلیم سے عاری معاشرے پر اس کے جو اثرات ہوں گے وہی نتائج، قصور، مردان، کراچی اور لاہور وغیرہ کے واقعات میں سامنے آرہے ہیں۔ قندیل بلوچ نامی ماڈل کے قتل کے بعد اسے مفتی قوی کا کارنامہ قرار دیا گیا اور قندیل کو معصومہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ قتل کسی نے بھی کیا ہو قندیل بلوچ جو کچھ کررہی تھی وہ معاشرے میں بے ہودگی پھیلانے کا سبب تھا اور میڈیا اسے اچھال رہاتھا۔ پاکستانی ادارے اس وقت کہاں سورہے ہوتے ہیں جب ملک میں فحش فلمیں، ڈرامے اور بے ہودہ رسائل کی بھرمار ہوتی ہے۔ سائبر کرائم والے صرف حکومت کے خلاف سرگرمیوں یا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی مخالفت ہی پر حرکت میں آتے ہیں۔ ان کی بلا سے مسلمانوں کے معاشرے میں کس قدر بے ہودگی پھیل رہی ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو یہ سارے کام عملاً حکومتی سرپرستی میں ہورہے ہیں۔ حکمران اس سے بری الذمہ نہیں۔قرآن پاک تو مسلمانوں میں فواحش پھیلانے والوں کے بارے میں سخت ترین وعید سناتا ہے۔ ان کے لیے دنیا و آخرت میں شدید عذاب کی وعید ہے۔ جب حکمران یہ کام کررہے ہوں تو وہ دوہری پکڑ کے مستحق ہوں گے۔ ان کا کام معاشرے میں اخلاقی تعلیمات کو فروغ دینا تھا نہ کہ تفریح کے نام پر بے ہودگی کا فروغ- مسلمانوں کے ملک میں یہ کام حکمرانوں کا اولین فریضہ ہے۔