تاجرماریشس کے ذریعے افریقی براعظم تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، ہائی کمشنر

764

کراچی کی تاجر برادری ماریشس میں کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کر مواقعوں سے فائدہ اٹھائے،راشد صوبادار

کے سی سی آئی کا تجارتی وفد فروری2018 میں ماریشس جائے گا، مفسر عطا ملک

کراچی(اسٹاف رپورٹر) ماریشس کے ہائی کمشنر راشد صوبادار نے کراچی کی تاجروصنعتکار برادری پر زور دیاہے کہ وہ ماریشس کے ذریعے افریقی براعظم تک رسائی حاصل کرنے پر غور کریں جو 55 ممالک میں داخل ہونے کے حوالے سے ایک مو¿ثر پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیاجاسکتا ہے۔افریقہ میں بہت زیادہ مواقع موجود ہیں جو تیزی سے ترقی کررہاہے اور اس کا مستقبل بھی روشن ہے لہٰذا کراچی کی تاجر برادری کو ماریشس میں اپنی کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کر ان مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ماریشس میں ایک بار کمپنی رجسٹرڈ ہونے سے افریقہ کے مختلف ممالک کے ساتھ مختلف معاہدوں کے تحت ڈیوٹی فری فوائد سے لطف اندوز ہونے کے اہل ہوجائیں گے۔یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میںکہی۔اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر مفسر عطاملک،سینئر نائب صدر عبدالباسط عبدالرزاق، کراچی میں ماریشس کے اعزازی قونصل جنرل سہیل یاسین سلیمان، کمرشل ہیڈ محمد سجاد اعظم اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی شریک تھے

۔ہائی کمشنر نے کہاکہ ماریشس میں دوطرفہ تجارت کے مواقع تلاش کرنے کے علاوہ تاجروصنعتکار برادری پڑوسی ممالک بشمول مڈغاسکر، سیشیلس، تنزانیہ، روانڈا اور موزمبیق میں بھی مواقع تلاش کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اگرچہ ماریشس بحر ہندکے درمیان ایک چھوٹا جزیرہ ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنی قوم کی تعمیر کررہاہے تاہم یہ آسان کام نہیں کیونکہ ماریشس ایک کثیرنسلی،کثیر ثقافتی اور کثیرمذہبی ملک ہے ۔انہوںنے ماریشس کی معیشت کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ابتدا میں ماریشس کی معیشت کا دارومدار صرف گنے کی پیداوار پر تھا لیکن اب اسے کامیابی کے ساتھ وسیع کردیا گیا ہے

نتیجے میں آج ماریشس کی معیشت کے چار سے پانچ اہم ستون پر کھڑی ہے جن میںمالیاتی خدمات، آئی سی ٹی،سیاحت اور پیداوار شامل ہیں۔ہم ایک آزاد اور لبرل معیشت ہیں جہاں ہمارا سیاسی نظام جمہوریت کے ویسٹ منسٹر ماڈل پر مبنی ہے۔ماریشس میں جمہوریت سخت قوانین پر منحصر ہے جو کاروبار و تجارت میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔قانونی کی حکمرانی کی وجہ سے گڈ گورننس کے اصولوں پر چلتے ہوئے جزیرے کی ترقی میں مدد ملی۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ 15سالوں کے دوران ماریشس کی ترقی کی شرح 5سے7فیصد رہی ہے جبکہ اس کی فی کس آمدنی 12000ڈالر تک پہنچ گئی ہے جو 1968 میں بمشکل 200 ڈالر تھی۔ہائی کمشنر نے کے سی سی آئی کے وفد کے آئندہ دورہ ماریشس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مشورہ دیاکہ وفد میں شامل اراکین دلچسپی کے شعبوں کی شناخت کریں۔ماریشس کا بورڈآف انویسٹمنٹ، ہائی کمیشن اور اعزازی قونصلیٹ ماریشس کے خوشگوار ماحول میں کاروبار کرنے کے خواہش مند کراچی کے تاجروں وصنعتکاروں کے ساتھ اپنا بھرپور تعاون پیش کریں گے۔کسی بھی مشکل یا مسئلے کو فوری طور پر حل کیاجائے گا ۔قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر نے مفسر عطاملک نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے پہل کرنے پر زو دیا۔انہوں نے کہاکہ مالی سال 2017 میں پاکستان نے 23.24 ملین ڈالر مالیت کی اشیاءماریشس کو برآمد کیں جبکہ درآمدات کم ہو کر 3.15 ملین ڈالر ہو گئیں جو ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس کمی کی وجوہات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے اور صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ہائی کمشنر کو بتایا کہ کراچی چیمبر فروری2018کے آخری ہفتے میں

ایک وفد ماریشس بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت وسرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا ہے۔انہوں نے ہائی کمشنر سے درخواست کہ کے سی سی آئی کے وفد کو سہولیات فراہم کرتے ہوئے ماریشس کے تاجروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ میٹنگز کے اہتمام میں تعاون کیا جائے تاکہ وفد کا دورہ سود مند اورنتیجہ خیز ثابت ہو۔انہوںنے کہاکہ سرمایہ کاری و مشترکہ شراکت داری کے لحاظ سے کراچی ماریشس کی تاجر برادری کوشاندار مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ شہر قومی خزانے میں 65فیصد سے زائد ریونیو کا حصہ دار ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش مقام ہے جہاں کاروبار یا مشترکہ شراکت داری کے ذریعے یقینی طور پر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے

۔انہوںنے سی پیک کے تحت کراچی میں دو خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ماریشین تاجربرادری کو ان اقتصادی زونز میں دلچسپی لینا چاہیے جہاں وہ 10سالوں کے لیے ٹیکس چھوٹ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو کافی غیر معمولی ہے اور ساتھ ہی دیگر فوائد بالخصوص ون ونڈو آپریشن سہولت سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔مفسر ملک نے سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس منصوبے سے خطے کی اقتصادی صورتحال میں بہتری آئے گی جو پاکستان کو وسطی اور جنوبی ایشا کا مرکز بنا دے گا۔ اس منصوبے کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیاہے اور انہیں یقین ہے سی پیک پورے خطے میں کاروباری وصنعتی ماحول کو تبدیل کرکے رکھ دے گا لہٰذاماریشین سرمایہ کاروں کو بھی سی پیک سے متعلق منصوبوں میں سرمایہ کاری یا پھر مشترکہ شراکت داری کے ذریعے اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔