سانپوں کو آستین میں نہ پالیں

351

غزالہ عزیز

ریڈیو ’’مشال‘‘ کی نشریات اور سرگرمیوں پر آخر کار پابندی لگادی گئی۔ دیر آید درست آید۔ ریڈیو مشال کیا ہے؟ یہ مشال امریکی ادارے، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی کی پشتو سروس ہے جس کی امریکی کانگریس کی جانب سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ وزیر داخلہ نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق یہ ریڈیو ایسے پروگرام نشر کررہا تھا جو پاکستان کے مفادات کے خلاف تھے اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسی کے پروپیگنڈے سے مطابقت رکھتے تھے۔ اسی سبب سے ریڈیو کے علاقائی دفتر اور اس کی سرگرمیوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر امریکی حکومت نے بڑی تکلیف کا اظہار کیا ہے اور اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ فوری اور واضح طور پر ریڈیو کے دفاتر کی بندش کا فیصلہ واپس لے اور اس کی نشریات اور آپریشنز کو بحال کرے۔ جس طرح پاکستانی حکومت امریکی مطالبات کو تسلیم کرتی رہی ہے اس سے کچھ بعید نہیں کہ ان کی یہ بات بھی مان لی جائے۔
ریڈیو مشال سے نشر کیے جانے والے پروگرام بنیادی طور پر چار نکات پر مرکوز رہتے تھے۔ ایک یہ کہ پاکستان کو دہشت گردی اور عسکری گروپوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے ایک مرکز کے طور پر پیش کیا جائے، دوسرے پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے پر زور دیا جائے، تیسرے بلوچستان اور فاٹا کے متعلق یہ تاثر دیا جائے کہ حکومت اپنی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ وہاں پاکستان کا طلسم ٹوٹ رہا ہے اور چوتھے یہ کہ لوگوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ریڈیو فری یورپ جس نے فاٹا کے لیے ریڈیو مشال کے نام سے اپنی نشریات کا آغاز 2010ء میں کیا تھا اُن نو میڈیا اداروں میں شامل ہے جن پر روس نے بھی پچھلے مہینے بیرونی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اس سے قبل نومبر 2017ء میں پشاور میں باب خیبر کے مقام پر وائس آف امریکا کے پشتو زبان کے ’’ڈیوا ریڈیو‘‘ کے خلاف مظاہرہ ہوا اور احتجاجی جلوس بھی نکالا گیا، علاقے کے لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکی نشریاتی اداروں ڈیوا ریڈیو، مشال ریڈیو اور ریڈیو آزادی کی جانب سے مسلسل اسلامی احکامات کے مذاق اڑانے، پاکستان کی سالمیت اور دفاعی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اور فاٹا کے سیاسی مستقبل کے بارے میں یک طرفہ گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنے نشریاتی اداروں کے علاوہ رفاہی اداروں یعنی این جی اوز کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے اور کررہا ہے۔ پچھلے دنوں واشنگٹن نے فری بلوچستان کے ساتھ ساتھ فری کراچی مہم کا بھی آغاز کردیا ہے۔ پچھلے دس برس کے دوران امریکی ادارے پاکستان میں کھلے اور چھپے کم از کم 13 بلین کی رقم این جی اوز کو ادا کرچکے ہیں۔ یہ رقم اشتہارات دستاویزی فلموں اور سماجی سرگرمیوں کے نام پر دی گئی ہیں۔ معاملہ انتہائی تشویش ناک ہے کیوں کہ امریکی سی آئی اے اور دیگر ملک دشمن عناصر کا نیٹ ورک میڈیا کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی اپنے قدم جمارہا ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے سالانہ فیسٹیول میں قوم پرستوں نے حملہ کیا، اگرچہ اس حملے میں جمعیت ہی کے کارکن زخمی ہوئے لیکن پولیس نے پھر بھی انہیں ہی گرفتار کیا۔ سوشل میڈیا میں ثبوت کے ساتھ خبر آنے کے بعد انہیں رہائی دی گئی۔
دوسری طرف قوم پرست آزاد بلوچستان کے قومی ترانہ کو لاؤڈ اسپیکر پر چلا کر ڈانس کرتے رہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ سمیت کوئی حکومتی ادارہ پوچھنے نہیں آیا۔ حساس اداروں کے اطلاع دینے پر ہوش آیا۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں افغانستان کے جھنڈے بنے ہوئے ہیں۔ علیحدگی پسندوں کے ترانے پنجاب یونیورسٹی میں بجائے جارہے ہیں۔ پھر تعلیمی نصاب میں جنسی تعلیم کو متعارف کروانے کے لیے دو ہزار تیرہ میں خاص طور سے این جی اوز نے حکومت کے تحت منصوبہ بنایا، مخصوص نظریات کی حامل این جی اوز کے ذریعے تعلیمی اداروں میں ایسے ٹاک شوز اور سروے کروائے گئے جو آزادی کے نام پر انتشار اور اسلام بیزاری پیدا کرنے کا باعث ہوں۔ پھر ان کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ بعض تنظیمیں سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلانے کے لیے بھی فنڈنگ میں ملوث ہیں۔ اپریل 2017ء میں اس حوالے سے تحقیقات کی گئی تھیں اور کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی تھیں۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور محمد ارشاد کا یہ بیان بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ غیر ملکی این جی اوز ماضی میں بھی انتخابات پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں اور آئندہ 2018ء میں انتخابات میں غیر یقینی صورت حال پیدا کرنے اور انتخابات کو متنازع بنانے کے لیے مختلف این جی اوز سرگرم ہیں۔ بین الاقوامی غیر ملکی تنظیموں کے ذریعے 32 ارب روپے تقسیم کیے گئے ہیں جن کی تحقیقات آڈیٹر جنرل پاکستان کے ذریعے کروانی چاہیے۔ اس بارے میں ضروری ہے کہ پاکستان کے ان چھپے ہوئے دشمنوں کا سراغ لگایا جائے اور ان کا قلع قمع کیا جائے۔ وائس آف امریکا میں اس خبر کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر تبصرے دیکھ کر حیرت آمیز خوشی ہوئی۔ سارے تبصرے اس ایکشن پر مسرت کا اظہار کررہے تھے۔ یعنی عوام میں آگاہی ہے۔ بس حکومت ہی صحیح وقت پر ایکشن لینے میں سستی کرجاتی ہے۔ بہرحال 2018ء کے الیکشن سے قبل میڈیا اور این جی اوز کے کردار کا باریکی سے جائزہ لینا چاہیے تا کہ وہ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز نہ ہوں۔