حقیقی جمہوریت کا خواب

232

عارف بہار

جمہوریت کوئی حنوط شدہ جانور اور پرندہ نہیں کہ جسے ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھا جائے، نہ کوئی بُت اور مجسمہ ہے کہ جس کی پرستش کی جاتی رہے اور نہ ہی کسی مغربی حکمران سے وابستہ پتھر یا نوادرات میں شامل کوئی شے ہے کہ جسے وقت کے عجائب خانے میں دیدار عام کے لیے رکھا جائے۔ یہ آبِ رواں کی طرح تمانیت اور فرحت بخشتا ہوا نظام ہے جو انسانی زندگیوں میں ایک واضح تبدیلی کی صورت منعکس ہوتا ہے۔ ہماری جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسے علامتوں، اصطلاحوں اور عمارتوں کے مترادف اور مصداق جان لیا ہے۔ ہم جمہوریت جمہوریت کا منتر پڑھ کر اس کی روح کو ایصال ثواب پہنچاتے ہیں جب کہ دنیا اس پر عمل کرتی اور ترقی کے مدارج طے کرتی ہے۔ ہماری جمہوریت ہمیشہ حالات کی رسی پر ڈولتی رہی ہے۔ اسی دوران کوئی حادثہ رونما ہو کر جمہوریت کو دس سال کے لیے حالات کی کھائی کی نذر کردیتا رہا ہے۔ ان دنوں جہاں ایک بار پھر جمہوریت پر خطرات کے سائے منڈلانے کی باتیں ہورہی ہیں وہیں ملک کے طاقتور ادارے جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کا برملا اظہار کررہے ہیں۔ ان میں عدلیہ اور فوج جیسے ادارے شامل ہیں۔ افواج پاکستان نے جمہوریت کے ساتھ اپنی بھرپور وابستگی کا اظہارکرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا ہے کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق جمہوریت کو فوج سے نہیں اس بات سے خطرہ ہے کہ اس کے اثرات عام آدمی تک نہ پہنچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات وقت پر الیکشن کمیشن کو کرانا ہیں خدا نہ کرے اس پہل کا اعلان آرمی چیف کو کرنا پڑے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی دوٹوک انداز میں وضاحت کر چکے تھے کہ وہ جمہوریت اور دستور کے ساتھ ہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ان یقین دہانیوں اور ضمانتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات وقت پر ہونا طے ہو چکا ہے اس کی گارنٹی دینا فوج کا کام نہیں۔ اس سے پہلے وزیر اعظم شاید خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ملکی تاریخ کا خطرناک وزیر اعظم ہوں کسی میں ہمت ہے تو پارلیمنٹ توڑ کر دکھائے۔ ان تمام بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک حلقہ جمہوریت کے خطرے میں ہونے کی دُہائی دے رہا ہے۔ جمہوریت کو خطرہ صرف فوج سے ہو سکتا ہے۔ ماضی میں فوجی جرنیل حکومتوں کے تختے اُلٹ کو آئین کو طاق میں رکھ چکے ہیں۔ عدلیہ فوج کے اس قدم کو نظری�ۂ ضرورت کا جامہ پہناتی رہی ہے۔ اس بار فوج اور عدلیہ دونوں جمہوریت سے اپنی وابستگی کا اظہار کررہے ہیں۔ جمہوریت فرد واحد اور چند بااثر اور بارسوخ چہروں کا نام نہیں ہوتا جو اگر منظر پر ہوں تو جمہوریت کا پہیہ رواں رہتا ہے اور وہ کسی بھی وجہ سے منظر یا کرس�ئ اقتدار سے ہٹ جائیں تو جمہوریت کا بیڑہ غرق ہونے لگتا ہے۔ یہ شخصی نظام میں تو ہوتاہے مگر جمہوریت میں افراد کے بجائے اداروں کی اہمیت ہوتی ہے۔ ادارے مضبوط ہوں، اپنا کام کرتے ہوں اور اس کے اثرات عام آدمی کی زندگی میں نظر آئیں تو کسی فرد کے آنے جانے سے جمہوریت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ملک کی سیاسی جماعتیں شخصی وفا کے کھونٹے سے بندھی ہوئی ہیں۔ اس لیے انہیں جمہوریت کا حقیقی مفہوم پوری روح کے ساتھ سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ یہ ایک تضاد ہے ہمیں راوی کنارے ٹیمز کی جمہوریت کے نظارے اور مزے چاہیں۔ ٹیمز کی جمہوریت کی طرح پھر ہمیں ذمے دار، شفاف، شخصی وفا کے تصورات سے آزاد جمہوریت کو قائم اور سیاسی جماعتوں کو منظم کرنا چاہیے۔ جمہوری نظام کا پہلا تقاضا جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں۔ ہماری تمام جماعتیں شخصی ہیں۔ یہاں تو کئی ایک جماعتیں ایسی بھی گزری ہیں جن کا نعرہ ہی ’’ہم کو منزل نہیں راہنما چاہیے‘‘ رہا ہے۔ یہ جماعت فرد واحد سے وفاداری کا حلف لیتی رہی۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ انداز اختیار تو نہیں مگر غیر محسوس اور غیر اعلانیہ طور پر وہ اسی ماٹو پر عمل درآمد کرتی ہیں۔ جڑانوالہ میں مسلم لیگ ن کے جلسے میں طلال چودھری کا میاں نوازشریف کی موجودگی میں یہ کہنا کہ نوازشریف کے سوا کسی اورکو وزیر اعظم نہیں دیکھ سکتے حقیقت میں ’’ہم کو منزل نہیں راہنما چاہیے‘‘ کے اسلوب اور اصول کا ہی عکاس ہے۔
پیپلزپارٹی جیب سے برآمد ہونے والی ایک مشتبہ پرچی جسے وصیت کہا گیا ایک گھرانے سے دوسرے گھرانے کو منتقل ہو گئی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد اس وقت تک کمزور رہے گی جب تک کہ سیاسی جماعتیں اپنے معاملات ٹھیک نہیں کرتیں۔ احتساب کا نظام جمہوری نظام کا بنیادی تقاضا ہے۔ احتساب اور چیک اینڈ بیلنسز نہ ہوں تو جمہوریت آمریت کے طور طریقے اپنالیتی ہے۔ ہماری جمہوریت میں بڑی سیاسی جماعتوں نے احتساب کی اصطلاح کو پوٹلی میں باندھ کر راول جھیل میں ڈبو دیا ہے۔ ان کی منطق یہ ہے کہ احتساب صرف ووٹ سے ہوتا ہے اور پانچ سال تک حکمران کسی بھی پوچھ گچھ سے آزاد اور بے نیاز ہوتے ہیں۔ فوج اور عدلیہ کی طرف سے جمہوریت کے ساتھ وفاداری اور وابستگی کے بعد سیاسی جماعتوں کی ذمے داری دوچند ہو رہی ہے۔ ایک شفاف اور ذمے دارانہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی کیے بنا کوئی چارہ نہیں۔ جمہوریت کو اب سیاست دان اپنے عمل سے مضبوط کر سکتے ہیں بصورت دیگر جمہوریت شکوک اور افواہوں کی زد میں رہے گی۔ حالات اور تجربات نے فوج کو جمہوریت اور آئین سے جڑے رہنے کا سبق پڑھایا ہے تو سیاسی جماعتوں کو بھی حالات واقعات سے کچھ سیکھنے کا ثبوت دینا ہوگا۔