شعر کیوں کہتے ہو بھائی کیا کوئی تکلیف ہے؟

977

احمد حاطب صدیقی

ابھی جب ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو لوگوں کو ایک دوسرے کی جہالت کی ’انفارمیشن‘ بھی کم ہی ہوتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ:
تا مردے سخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
(جب تک کہ کوئی شخص بولنا نہ شروع کردے، تب تک اُس کے عیب و ہنر پوشیدہ ہی رہتے ہیں) بعض اوقات نہ بولنے والے کو زیادہ ہنر مند تصور کیا جاتا تھا۔ اسی بات کو ضمیر جعفری مرحوم نے یوں بیان کیا:
وہ تو خاموش تھے جہالت سے
ہم اُنہیں فلسفی سمجھتے رہے
کیا زمانہ تھا کہ لوگ ’جہالت کی وجہ سے‘ خاموش رہا کرتے تھے۔ اب تو محض اِسی وجہ سے بولنے پر اُتر آتے ہیں۔ اتنا بولتے ہیں کہ بول بول کر بولا جاتے ہیں۔ دوسرے بھی بولائے بولائے سنتے رہتے ہیں کہ کسی طرح یہ چپ ہو تو ہم بولیں۔
خیر، یہ تو ہوئی بولنے کی بات۔ کچھ بات لکھنے کی بھی ہو جائے۔ قرونِ اُولیٰ میں لوگ ’پڑھے لکھے‘ تو کہے جاتے تھے، مگر ’پڑھے‘ زیادہ ہوا کرتے تھے، ’لکھے‘ کم۔ بہت ہمت کر کے اگر کچھ لکھتے بھی تو بس خط لکھتے اور اُس میں بھی یہی لکھتے کہ ’تھوڑے لکھے کو بہت جانو‘۔ پس پچھلے زمانے میں تھوڑا لکھا گیا اور بہت پڑھا گیا۔ اب معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ لکھا زیادہ جاتا ہے، پڑھا کم جاتا ہے۔ جب سب ہی لکھنے پر ’اُتارُو‘ ہوجائیں تو پڑھے گا کون؟ آج کل تو لکھنے والا پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ جس موضوع پر لکھا جارہا ہے، اُس موضوع پر کچھ پڑھنا تو در کنار، لوگ ایک دوسرے کے کالم بھی نہیں پڑھتے۔ جتنی دیر میں ایک کالم پڑھا جائے گا، اُتنی دیر میں شاید دو کالم لکھ لیے جائیں۔ اور اگر پڑھا جانے والا کالم محترم ومکرم و معظم و منظم ہارون رشید کا ہے تو شاید اُتنی دیر میں چار کالم لکھے جاسکتے ہیں۔
پہلے زمانے کے لوگ غالباً اپنی جہالت پر شرمندہ رہا کرتے تھے اور اس کو چھپایا کرتے تھے۔ موجودہ زمانے کے لوگ اسی شے کی مدد سے کالم لکھتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ (دُور کیوں جائیے؟ ہماری مثال آپ کے سامنے ہے، بلکہ ’زیرِ نظر‘ ہے)۔ ابھی چند روز قبل ایک دانشور نے اپنے کالم میں ثابت کیا کہ اسلام صرف رقص و موسیقی کا نام ہے۔ یہ عام ہوجائے تو اسلام ایک نعمت ہے، ورنہ خشونت۔ دُنیا جہان کے حوالے دے ڈالے۔ مگر کوئی حوالہ اس موضوع پر قرآنِ مجید سے نقل فرما سکے، نہ کوئی فرمان نب�ئ اکرم ؐ کا، موضوع سے متعلق، پیش کر سکے۔ ہم بھی ایک ایک سے پوچھتے پھرے کہ کیا متعلقہ موضوع پر قرآن نے کوئی اُصول نہیں بتایا؟ اور کیا ہاد�ئ برحق ؐ نے اپنے اُمتیوں کی رہنمائی کے لیے اس ضمن میں ایک لفظ بھی ارشاد نہیں فرمایا؟ اگر قرآنِ مجید عربی کے بجائے انگریزی، لاطینی، ہسپانوی یا ترکی زبان میں نازل ہوا ہوتا تو کتنی سہولت ہوجاتی۔ محمد عربی ؐ پر ایمان لانا تو شاید ’خاندانی مجبوری‘ ہو۔ مگر موضوع زیر بحث پر آپ ؐ کا کوئی حکم، کوئی فرمان، کوئی ہدایت تلاش کرکے اپنی تحریر میں پیش کرنے کی ہمیں کیا مجبوری ہے؟ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے مصری مغنیہ اُم کلثوم سے رہنمائی لے لینا کافی نہیں ہے؟ اسی ضمن میں ہم اقبالؒ ؔ کی بھی کیوں سنیں جو کہتے رہ گئے کہ:
بہ مصطفی ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی ست
دین کی رہنمائی در کار ہے تو اپنی ذات کو محمد مصطفی ؐ کی ذاتِ اقدس کے حضور لے کر جاؤ، کیوں کہ دین تو بس وہی ہے جو آپؐ نے پیش فرمایا۔ اگر آپؐ سے رہنمائی نہ لی تو سوائے بولہبی کے کچھ بھی تمہارے ہاتھ نہ آئے گا۔
بات بولنے اور لکھنے سے چلی تھی۔ آج کل لکھنے پر دھمکیاں ملنے لگی ہیں لہٰذا لوگ دھمکیوں پر لکھنے لگے ہیں۔ کوئی اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے تو جس کی بھی حدود کو پامال کرتا ہے اُس کو غصہ آہی جاتا ہے۔ مگر جس کے پاس جس قسم کی بھی طاقت ہو ۔۔۔ اقتدار کی، ہتھیار کی یا اختیار کی۔۔۔ وہ اپنی حد سے تجاوز کرنا اپنے لیے باعث وقار سمجھتا ہے۔ مگر جو لوگ اقتدار، ہتھیار یا اختیار سے محروم ہوں وہ کبھی غصے سے محروم نہیں رہتے۔ مگر فقیر کا غصہ جھولی پر، غریب کا غصہ جورو پر اور کالم نگار کا غصہ کالم پر اُترتا ہے۔ اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا۔ ۱۹۸۴ء کا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہم نے ’’جسارت‘‘ میں بلاناغہ اخباری کالم نگاری کا آغاز کیا تھا۔ عمر ہوگی یہی کوئی اٹھائیس برس۔ ایک خبر پر نظر پڑی کہ ’کراچی کی فضائی آلودگی سے قائد اعظمؒ کے مزار کا سنگ مرمر میلا ہورہا ہے‘۔ ہم نے اس خبر پر کالم باندھا۔ جھونک میں آکر یہ فقرہ بھی لکھ گئے کہ:
’’قائد اعظمؒ کا مزار تو اُسی وقت سے میلا ہونا شروع ہوگیا تھا، جب ابھی اُن کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا‘‘۔
اُس زمانے میں روزمرہ کالم نگاری کے میدان میں ’آداب عرض‘ والے نصراللہ خان کا توتی بولتا تھا۔ اپنے ایک کالم میں اُنہوں نے ۔۔۔ ’ہمارے بھائی ابونثر‘ ۔۔۔ کہہ کر اس شوخ فقرے کی داد دی۔ خان صاحب کے صاحب زادے جناب نجم الحسنین نجمی ریڈیو پاکستان کراچی میں ’بزم طلبہ‘ کے پروڈیوسر تھے اور اس مبتدی کو جانتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے والد محترم کو بتایا کہ جس شخص کو آپ نے اپنا ’بھائی‘ بنایا ہے وہ آپ کے پوتے کی عمر کا ہے۔ خان صاحب نے ہمیں بلوا بھیجا۔ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ اُس وقت ہماری عمر ایسی تھی کہ۔۔۔ ’کی جس سے بات، اُس نے نصیحت ضرور کی‘ ۔۔۔ سو، ایک نصیحت خان صاحب نے بھی کر ڈالی:
’’ کالم کبھی طیش کے عالم میں مت لکھنا۔ کسی موضوع پر غصہ آبھی جائے تو اُس موضوع پر لکھنے کے لیے غصہ فرو ہوجانے کا انتظار کرنا‘‘۔
مگر کیا کیجیے کہ اِس چڑچڑے کالم نگار کو بات بات پر غصہ آجاتا ہے۔ اور نہیں تو اِسی بات پر کہ:
اوج پر ہے کمالِ بے ہنری
باکمالوں میں گھِر گیا ہوں میں
صاحبو! غصہ ایسی آندھی ہے جو عقل کا چراغ گُل کردیتی ہے۔ ایسے میں نصیحت بھلاکس کم بخت کو یاد رہتی ہے؟ تاہم یاد آجائے تو لکھنا چھوڑ چھاڑ کر اُستاد کی نصیحت کے مطابق غصہ فرو ہونے کا انتظارکرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک اُستاد کا کہنا تھا کہ قاری اور قلم کار میں اپنائیت کا رشتہ ہونا چاہیے۔ مزا تو جب ہے کہ بات دِل سے نکلے اور دِل پر دستک دے۔ ایک استاذ الاساتذہ کا قول ہے، جو ہر روز کئی بار دوہرانے کے قابل ہے: ’’ بولنے، لکھنے اور ہر کام کرنے میں یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اِس سے دین یا دُنیا کا کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں‘‘۔
یہاں ’دنیا‘ سے مُراد اپنی خواہشات اور اپنے تعصبات کی تنگ وتاریک دُنیا نہیں، نوعِ انسانی کی فراخ، کُشادہ اور وسیع دُنیا ہے۔ نوعِ انسانی بھی وہ جس کی بابت ربِّ کریم نے خود فرمایا کہ: ’ہم نے بنی آدم کو کِرامت وبزرگی بخشی ہے اور ہم اسے بحروبر میں لیے لیے پھرے ہیں‘۔
طرزِ اظہار بھی خوش گُفتاروں کی گُل افشانیئ گُفتار جیسا ہونا چاہیے۔ شاید کہ تِرے دِل میں اُترجائے مِری بات! اور ایک اچھی نثر میں بھی ویسی ہی کشش ہونی چاہیے جو اچھے شعر میں ہوتی ہے۔ اچھے شعرکی خوبی مسٹرؔ دہلوی مرحوم نے یوں بیان کی تھی:
ہو وہ اِک مجموعۂ حُسنِ بیاں، حسنِ خیال
خوب صورت شعر کی مسٹرؔ یہی تعریف ہے
اِن میں سے کچھ بھی نہیں ہے جب تُمہارے بس کا روگ
شعر کیوں کہتے ہو بھائی کیا کوئی تکلیف ہے؟