واشنگٹن( مانیٹرنگ ڈیسک)امریکاکے سرکاری نگراں ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کا 70 فیصد حصہ طالبان کے پاس چلا گیا۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے یہ رپورٹ امریکی کانگریس، محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کو بھیجی گئی۔ رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں شدت ریکارڈ کی جا رہی ہے جب کہ امریکا افغانستان میں کنٹرول کھو رہا ہے اور اس کے زیر کنٹرول اضلاع کی تعداد کم ہورہی ہے، اس کے مقابل ان علاقوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن پر مزاحمت کاروں کا قبضہ یا اثر و رسوخ ہے۔سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے 14اضلاع مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں آچکے ہیں جب کہ دیگر 263اضلاع میں یہ جنگجو کھلے عام گھوم پھر رہے ہیں۔رپورٹ میں اس بات پر تشویش کااظہار کیا گیا ہے کہ عوامی مفادات کے معاملے پر افغان حکومت بالکل دور ہوچکی ہے۔رپورٹ میں خبر دار کیاگیا ہے کہ فورسز کی جانب سے مسلسل فضائی حملوں سے شہریوں کی ہلاکت میں اضافہ ہوا جو افغان حکومت کی حمایت کے لیے خطرہ اور مزاحمت کاروں کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2017 ء میں بم حملوں کے اعداد و شمار 2012ء کی نسبت 3 گنا زیادہ ہیں اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا جب کہ سپا ہیوں کو ہلاک کیا جانا تقریباً روز مرہ کا معمول ہے، گزشتہ 11 مہینوں میں 11 امریکی فوجی ہلاک ہوئے، اکتوبر میں افغانستان میں فورسز نے دشمنوں کے ٹھکانوں پر 653 بم گرائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ منشیات پر کنٹرول کے لیے 8 ارب 70 کروڑ ڈالرامداد دی گئی لیکن اس کے باوجود گزشتہ سال افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 87 فی صد اضافہ ہوا اور پوست کے زیر کاشت رقبے میں بھی 63 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں امریکا کی فوج نئے ضوابط کے ساتھ لڑ ے گی اور ہم مصنوعی ڈیڈ لائنز بتا کر افغانستان میں دشمنوں کو چوکنا نہیں کریں گے۔