بأیّ ذنبٍ قُتِلت

372

قرآن مجید کی سورہ تکویر میں ایک ایسے معاشرے کی مکمل تصویر کھینچی گئی ہے جہاں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی ہلاک کر دی جاتی تھیں‘ سورہ تکویر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی؟ زینب کی کہانی کوئی آج کی کہانی نہیں ہے‘ زمانہ جہالت سے جڑی ہوئی کہانی ہے آج بھی اس معاشرے میں دو کردار ابھی زندہ ہیں ایک مرنے والے اور دوسرے مارنے والے‘ بقول طارق عزیز اس زمین پر دو ہی گروہ ہیں ایک زہر پلانے والے اور دوسرے زہر پینے والے‘ قانون اور آئین کہتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی مرضی کے دین کے مطابق زندہ رہنے کا حق ہے مگر یہاں قصور میں تو مرنے والی اور مارنے والا دونوں مسلمان ہیں‘ پھر یہ المیہ کیوں ہوا؟ یہ المیہ دین سے دوری‘ جہالت سے قربت کی وجہ سے رونماء ہوا‘ لیکن اس کے بعد کیا ہوا اور کیا ہورہا ہے یہ المیہ سے بڑھ کر نہیں تو اور کیا ہے؟ پورا میڈیا طرح طرح کی کہانیاں پیش کر رہا ہے۔ بریکنگ نیوز کے چکر نے تو سب کو چکرادیا ہے ہونا یہ چاہیے کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جائے اگر کسی کے پاس کوئی ایسی معلومات ہیں جو کیس میں مدد گار ہوسکتی ہیں اگر پولیس اور حکومت پر اعتماد نہیں تو چپکے سے آئینی عدالت کے روبرو پیش کر دی جائے پھر عدالت کی رہنمائی میں اس پر کام کیا جائے معلومات درست ثابت ہوجائیں تو بہت اچھا‘ غلط ثابت ہوجائیں تو بھی معاشرہ ابہام سے بچ جائے گا لیکن یہاں تو بریکنگ نیوز کے بخار نے اخلاقیات کو تنکے مانند بہا کر رکھ دیا ہے ایک ٹی وی اینکر کے دعوے نے تو طوفان کھڑا کردیا دعویٰ کیا گیا کہ زینب قتل کیس میں ملوث ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹ ہیں عدالت عظمیٰ نے فوری نوٹس لے لیا اور طلبی پر بھی اس اینکر نے نہ صرف اپنی داستان طرازی پر اصرار کیا بلکہ ایک وفاقی وزیر سمیت دو افراد کے نام بھی ایک کاغذ پر لکھ کر عدالت کے حوالے کردیے کہ یہ اس کیس میں ملوث ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے بھی جب اپنی تحقیقات شروع کیں تو اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ پورے پاکستان کے کسی بھی بینک میں ملزم کا کوئی اکاؤنٹ نہیں، جے آئی ٹی نے دوبار اینکر کو تحقیقات کے لیے طلب کیا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے، پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے اینکر کے اس دعوے کو تحقیقات کا رخ موڑنے کی دیدہ دانستہ کوشش قرار دیا۔ عدالت عظمیٰ کے نوٹس پر جب اس مقدمے کی سماعت ہوئی تو عدالت عظمیٰ کے استفسار پر اینکر نے بتایا کہ ملزم عریاں فلمیں بنانے والے عالمی گروہ کا حصہ ہے اس کے پاکستان کے 37 بینکوں میں اکاؤنٹ ہیں، ایک وفاقی وزیر اور ایک اعلیٰ شخصیت اس گروہ کی سرپرستی کررہی ہے، اس لیے دورانِ تفتیش ملزم کے قتل کیے جانے کے بھی
امکانات ہیں، جس پر عدالت عظمیٰ نے ملزم کی حفاظت کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کر دی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس میں سچ سامنے لائیں گے۔ اینکر کا دعویٰ اپنی جگہ‘ اسٹیٹ بینک کے بیان کے مطابق ملزم کا ملک بھر کے کسی بینک میں ایک بھی اکاؤنٹ نہیں۔ بیرون ملک بیس اکاؤنٹ ہونے کی بات بھی اس لیے بعید از قیاس ہے کہ اس کے پاس پاسپورٹ ہی نہیں اب فیصلہ تو عدالت عظمیٰ کو دستیاب شواہد کی بنیاد پر کرنا ہے۔ ناظرین جانتے ہیں کہ یہ اینکر اس طرح کے دعوے ماضی میں بھی بہت کرتے رہے، ان کے ہنر کا نتارا بھی عدالت عظمیٰ میں ہو جائے گا جب تک زینب قتل کیس کا ملزم گرفتار نہیں ہوا تھا اس وقت تک ٹی وی چینل سارا زور کلامِ پولیس کی نا اہلی پر صرف کررہے تھے جب ملزم گرفتار ہوگیا پھر کہا گیا کہ پولیس نے کون سا تیر مارا تھا کہ اسے تعریفوں سے نواز دیا گیا۔ سوال صرف یہ ہے کہ ایک بظاہر نا قابلِ یقین بات پر اس حد تک اصرار کرنے اور اپنے انکشاف کو درست ثابت کرنے کے لیے اتنے بڑے دعوے کی ضرورت آخر کیوں پیش آگئی تھی؟ ملزم کے گھر اور گھرانے کے متعلق اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان سے تو قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس شخص کے کروڑوں کے اکاؤنٹ ہوں گے ہاں یہ بات درست ہے کہ پورن کے مکروہ دھندے میں جو بھی ملوث ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ملک کی ایلیٹ کلاس سے ضرور ہوسکتا ہے لہٰذا یہ کیس ایک بہت ہی وسیع تفتیش کا متقاضی ہے اب چوں کہ خود انہوں نے اس معاملے میں عدالت عظمیٰ کو آواز دی ہے تو بہتر ہے کہ فاضل عدالت یہ پتا بھی چلالے کہ حقائق کیا ہیں۔