جاڑے کے دن اور جاڑے کی راتیں

639

موسم سرما شروع ہوتا ہے تو پہلے سردی اپنی چھب دکھاتی ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں سبھی اس سے محظوظ ہوتے ہیں، پھر جوں جوں موسم سرما جوبن پر آتا ہے تو جاڑا برف پوش پہاڑوں سے اُتر کر نیم پہاڑی اور میدانی علاقوں میں آموجود ہوتا ہے، وہ جو کہتے ہیں کہ ’’آب آمد تیمم برخاست‘‘ تو یہی معاملہ سردی اور جاڑے کا بھی ہے۔ جاڑا آتا ہے تو سردی اس کی آغوش میں چھپ جاتی ہے اور ہر طرف جاڑے کا ڈنکا بجنے لگتا ہے۔ جاڑا آتا ہے تو وہ اپنے مخاطب کا نام پوچھتا ہے اور اس پر کپکپی طاری کردیتا ہے یہ کپکپاہٹ آگ کے سوا کسی چیز سے نہیں جاتی یا پھر دھوپ اس جاڑے کا توڑ ہے۔ جاڑے میں بے شک آسمان صاف ہو لیکن سورج پھر بھی ٹھٹھرتا ہوا نکلتا ہے اور دن کے دس بجے تک اس کی کرنوں میں جان آتی ہے، پھر دھوپ کی سنہری چادر زمین پر پھیل جاتی ہے اور جاڑے کے خوف سے کانپتے ہوئے کیا انسان کیا جانور سبھی دھوپ کی اس چادر کو اوڑھ کر شاد ہوجاتے ہیں۔ نصف صدی پہلے تک مکانوں میں صحن ہوا کرتے تھے جن پر نیلگون آسمان ایک سائبان کی طرح تنا رہتا تھا۔ دھوپ صحن میں اُترتی تو چار پائیاں بچھ جاتیں مکین ان چار پائیوں پر دھوپ کی چادر اوڑھ کر بیٹھ جاتے اور جاڑے کا لطف اٹھاتے تھے لیکن اب مکانوں میں صحن رہے نہ برآمدے، زمین کے پورے رقبے پر چھت ڈال دی جاتی ہے اور اس چھت کے نیچے تمام ضروری سہولتیں یکجا کردی جاتی ہیں۔ دویا تین بیڈ رومز اور ان سے ملحقہ واش رومز، ڈرائنگ روم، ٹی وی لاؤنج اور اس کے ساتھ کچن، چھوٹی سی راہداری اور گیراج۔ لیجیے، صاحب مکان تیار ہوگیا، علاقے میں زیادہ سردی پڑتی ہے تو مکینوں کو دھوپ تاپنے کے لیے چھت پر جانا پڑے گا، البتہ کراچی کا معاملہ دوسرا ہے وہاں کئی کئی منزلہ فلیٹس کا جنگل اُگا ہوا ہے، کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی اس جنگل میں رہتی ہے اس میں دھوپ کا گزر کہاں؟ ویسے بھی اہل کراچی کو دھوپ چبھتی ہے وہ جنوری میں بھی دھوپ میں زیادہ دیر کھڑے نہیں ہوسکتے کہ جاڑا ان کے پاس سے بھی نہیں گزرتا اب کی دفعہ سنا تھا کہ جنوری کے مہینے میں کراچی پر جاڑا حملہ آور ہونے والا ہے لیکن جنوری آخری دموں پر ہے اور ہمیں ٹیلیفون پر بتایا جاتا ہے کہ جاڑا آنے کی افواہ درست ثابت نہیں ہوئی تاہم معمول کی سردی ہے اور اسی پر گزارا ہورہا ہے۔
لیکن صاحب ہم یہاں نیم پہاڑی علاقے کہوٹا میں بیٹھے جاڑے سے ٹھٹھر رہے ہیں پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے بارش نہیں ہوئی۔ بارانی علاقوں میں فصلوں کا تمام تر انحصار بارش پر ہوتا ہے۔ کسان زمین میں ہل چلا کر بیج بودیتا ہے پھر اس کی نگاہیں آسمان پر لگ جاتی ہیں کہ کب بارانِ رحمت کا نزول ہو اور اس کی محنت ٹھکانے لگے۔ بارانی علاقے کے کاشتکاروں نے دسمبر میں گندم کی فصل کے لیے کھیت تیار کردیے تھے، دسمبر کے اوائل میں دونوں بارش ہوئی جس سے کونپلیں پھوٹ پڑیں اور گندم کے ننھے ننھے پودوں نے سر اُٹھالیا۔ جب تک زمین میں نمی رہی یہ پودے بڑھتے رہے اور ہر طرف ہریالی اپنے رنگ بکھیرتی رہی۔ توقع تھی کہ جنوری میں بارش ہوگی تو مردہ زمین جی اُٹھے گی کھیت لہلہانے لگیں گے اور کسانوں کی محنت رنگ لے آئے گی لیکن جنوری یونہی سو کھا گزر گیا اب حال یہ ہے کہ پودے پیلے پڑتے جارہے ہیں کھیتوں میں خاک اُڑنے لگی ہے اور درخت گردوغبار سے اَٹ گئے ہیں۔ اس وقت پورے پاکستان میں پانی کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے، بھارت نے ہمارے دریاؤں کا پانی روک لیا ہے، وہ ان دریاؤں پر دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہا ہے جو عالمی ادارے پاکستان کی فریاد سن سکتے تھے۔ وہ خود بھارت کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں، پاکستان کا اپنا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی تضادات اور تنازعات میں اُلجھا ہوا ہے حکمرانوں کو اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ’’اندھا بھینسا‘‘ کھیل رہی ہیں ایسے میں پانی کے بحران پر کون توجہ دے اور عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ کون پیش کرے گا۔ حد یہ کہ عوام کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے اور صوبائی حکومتیں اس سنگین مسئلے سے قطعی لاتعلق نظر آتی ہیں۔ لیجیے صاحب ہم کس معاملے میں اُلجھ گئے۔ ذکر تھا جاڑے اور خشک سالی کا، موسم سرما میں بارشیں نہیں ہوئیں لیکن جاڑا خوب پڑ رہا ہے، پنجاب کے میدانی علاقوں میں دھند بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے۔ یہ محض دھند ہے، اسموگ نہیں ہے جس میں دھند کے ساتھ زہریلا دھواں بھی شامل تھا اور اہل پنجاب موسم کے آغاز پر کافی دنوں تک یہ عذاب بھگتتے رہے، اب دھند کا یہ عالم ہے کہ جب یہ چھٹتی ہے تو آدھا دن گزر چکا ہوتا ہے باقی آدھا دن دھوپ تاپنے میں بیت جاتا ہے۔ مونگ پھلی ٹھونگنے کے سوا کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوپاتا۔ جاڑے کے دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں اتنی لمبی کہ کاٹے نہیں کٹتیں لیکن صاحب یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں، اب تو ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے جادوئی ڈبے نے وقت کو ہماری مٹھی میں بند کردیا ہے ہم راتوں کی طوالت کو جتنا چاہیں مختصر کرلیں۔ بڑے شہروں میں تو راتیں یوں بھی جاگتی رہتی ہیں، رہا چھوٹے شہروں کا مسئلہ تو وہاں بے شک سڑکیں سنسان ہوجاتی ہیں لیکن گھروں میں رت جگا برقرار رہتا ہے، شہر کیا دیہات میں بھی رت جگے کا کلچر اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت گلوبل ویلیج کے حصار میں آگئے ہیں اور اس گلوبل ویلیج میں رات اور دن گڈمڈ ہو کر رہ گئے ہیں۔ صرف رات دن ہی نہیں ہماری تہذیبی اقدار بھی عالمی کلچر کے ساتھ گڈمڈ ہو کر رہ گئی ہیں اور ہماری اسلامی شناخت کو سنگین بحران کا سامنا ہے۔ جاڑے کا علاج تو ہوسکتا ہے لیکن اس بحران کا علاج کیسے ہو۔