اشاعتِ فاحشہ 

1964

ہمارا گھرانا پانچ افراد پر مشتمل ہے، میرے علاوہ میری بیوی، بیوہ بہو، دس سالہ پوتا اور چھ سالہ پوتی شامل ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بچے عام طور پر کارٹون دیکھتے ہیں اور بڑے خبریں وغیرہ دیکھ لیتے ہیں۔ کل میں اندرونِ ملک سفر سے رات دیر گئے گھر واپس پہنچا۔ میں نے ٹیلی ویژن کا ریموٹ ہاتھ میں لیا کہ کچھ تازہ خبریں اور ٹِکر وغیرہ دیکھ لوں، تو میری بیوی نے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے ٹی وی بند کردیں اور ریموٹ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ میں نے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟، انہوں نے بتایا: محمد انیس الرحمن آج پوچھ رہا تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کیا ہوتی ہے؟‘‘۔ یہ اس لیے ہو ا کہ قصور میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے تقریباً تین ہفتوں سے ٹیلی ویژن چینلوں میں سنسنی خیزی کا مقابلہ چل رہا ہے اور کسی طور ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ مزید یہ کہ ہماری ساری خرابیوں کا سبب یہ بتایا جارہا ہے کہ اسکولوں میں جنسی تعلیم نہیں دی جارہی، لہٰذا ترقی یافتہ قوموں کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے نصابِ تعلیم کو جنسیات سے آلودہ کرنا ضروری ہے۔
یقیناًہمارے میڈیا مالکان اور کارکنان کے علاوہ پاکستان کے کروڑوں گھرانوں میں آٹھ سے بارہ سال تک کے بچے ہوں گے اور خون کو گرمانے والی ان خبروں کو وہ بھی سنتے اور دیکھتے ہوں گے اور ان کے ذہنوں میں بھی طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہوں گے، کیوں کہ گھروں میں ٹیلی ویژن عام طور پر کامن روم یعنی عام نشست گاہ میں ہوتا ہے اور سب چھوٹے بڑے بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہیں اور بالخصوص حالاتِ حاضرہ سے متعلق خبریں دیکھتے ہیں۔ بعض مؤقر کالم نگاروں نے لکھا ہے کہ فحاشی کے مناظر کی تصاویر بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کے ذریعے شرفا کے خاندانوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ ان تصاویر کے عالمی فحاشی کی مارکیٹ میں منہ مانگے دام ملتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جنسی جرائم پیشہ لوگ اتنے بااثر اور عالمی روابط کے حامل ہیں۔
گزشتہ دنوں پیمرا نے ٹیلی ویژن چینلوں کے نام ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا، اس کی دفعہ نمبر چھ میں لکھا ہے: ’’جرائم کے پروگراموں کی منظر کشی جو جرم کی تشہیر کا باعث ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ پیمرا ہدایت نامہ تو جاری کرسکتا ہے، لیکن نحیف ونزار پیمرا اس پر عمل درآمد نہیں کراسکتا۔ انسانیت کے مجرموں کو قرار واقعی بلکہ عبرت ناک سزا دینا اشد ضروری ہے اور اس طرح کے تمام مطالبات درست ہیں، لیکن ’’اشاعتِ فاحشہ‘‘ اور سنگین اخلاقی و قانونی جرائم کی تشہیر کے نوخیزاور ناپختہ ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات کے سدِّ باب کی بھی کوئی تدبیر ہونی چاہیے۔ ہمارے الیکٹرونک میڈیا میں اس کا کوئی اہتمام نہیں ہے اور انتہائی طاقت ورالیکٹرونک میڈیا کے سامنے اہلِ اقتدار کی بے حِسی اور بے بسی نوشتۂ دیوار ہے۔ نوعمر اور ناپختہ ذہن بچے سگریٹ، شیشہ، ہیروئن، کچی شراب اور مشروباتِ خبیثہ کی وبا میں اسی طرح تو مبتلا ہوتے ہیں کہ جب کسی چیز کا ذکر کثرت سے ہو، تو فطری تجسُّس انہیں یہ جاننے کی طرف مائل کرتا ہے کہ آخر اس میں کشش کیا ہے؟۔ الغرض پہلا کشَ یا پہلا گھونٹ اسی کیفیت کو جاننے کے لیے ہوتا ہے، ابتدامیں جرم کے ارتکاب کا یا مجرم بننے کا ارادہ نہیں ہوتا، لیکن بد قسمتی سے یہ وہ بند گلی ہے کہ جس میں داخلے کا راستہ تو ہوتا ہے، واپس بچ کر نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا۔
اس لیے میری درد مندانہ اپیل ہے کہ الیکٹرونک میڈیا پر جرائم کی تشہیر یا فواحش کی اشاعت کے سدّ باب کا کوئی نہ کوئی اہتمام ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(1) ’’بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی بات پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ (ہر بات کے انجام کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النور: 19)‘‘، (2) ’’وہ (شیطان) تمہیں برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بات کہو، جس کو تم نہیں جانتے، (بقرہ: 169)‘‘، (3) ’’لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: بے شک تم بے حیائی کا کام کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا، کیا تم مردوں سے شہوت پوری کرتے ہو اور راہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو، (العنکبوت: 29)‘‘۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی نے لکھا ہے: ’’فاحشہ انتہائی قبیح فعل کو کہتے ہیں‘‘، سیدنا عبداللہ بن عباس سے روایت ہے: ’’ہر وہ برا کام جس پر شریعت نے کوئی حد مقررنہ کی ہو، ’’سُوء‘‘ ہے‘‘۔ ابن جریر طبری نے لکھا: ’’فحشاء ہر وہ برائی ہے جس کا بیان کرنا اور سننا دونوں قبیح ہوں اور بے حیائی کے زمرے میں آتے ہوں‘‘۔ ’’قرآن مجید نے زنا اور قومِ صدوم کے فعل پر بھی فاحشہ کا اطلاق کیا ہے‘‘۔
آج کل ہم الیکٹرونک میڈیا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ’’اشاعتِ فاحشہ‘‘ کے دور سے گزر رہے ہیں اور اس پر ریاست و حکومت کا تحدید و توازن کا کوئی نظام نہیں ہے اور نہ ہی نظارت یعنی Vigilance کا کوئی نظام ہے۔ بس اس حوالے سے ہم ایک اندھی مسابقت کے دور سے گزر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں جہاں ’’اشاعتِ فاحشہ‘‘ اخلاقی برائی یا قانونی جرم کے زمرے میں نہیں آتی، کم ازکم اتنا اہتمام ضرور ہے کہ الیکٹرونک میڈیا پر فحش فلمیں یا ڈرامے رات گئے اُس وقت چلائے جاتے ہیں جب اسکول جانے والے بچے سو جائیں، لیکن ہمارے ہاں چوبیس گھنٹے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب تو اردو زبان کی نفاست و لطافت، فصاحت و بلاغت اور ادبیت بھی قص�ۂ پارینہ بنتی جارہی ہے، ٹیلی ویژن چینلوں کے اینکر پرسنز نت نئے محاورے اور اصطلاحات وضع کررہے ہیں اور وہی امامُ اللُّغات ہیں۔ چند دن پہلے ایک ادبی کالم نگار کا کالم پڑھنے کو ملا، جس میں وہ اسی طرح کے روز مرّہ اور محاوروں پر تبصرہ فرما رہے تھے، جن سے اردو لغت بورڈ والے محققین بھی آشنا نہیں ہیں، انہیں بھی شاید ان اینکرز پرسنز کی شاگردی اختیار کرنی پڑے، مثلاً: ’’پولیس کی دوڑیں لگ گئیں‘‘ اور ’’وزیراعظم کو ماموں بنا دیا‘‘ وغیرہ۔ ہماری عاجزانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا مالکان، پالیسی سازوں، پروگرام ڈائریکٹرز اور اینکر پرسنز کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتما م ہونا چاہیے، جن میں انہیں وطنِ عزیز کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اَقدار کا شعور دیا جائے اور ماہرینِ نفسیات کا بھی اس میں کوئی نہ کوئی کردار ضروری ہے کہ کسی سانحے، حادثے، وقوعے، خبر یا جرم کو کس طرح پیش کیا جائے، کہ ہماری نئی نسل اس کے برے اثرات سے ممکن حد تک محفوظ رہے۔
اسلام نے مقاصدِ شرعیہ میں اخلاقی مفاسد اور جرائم کے سدِّباب کے لیے ’’سدِّ ذرائع‘‘ کی حکمت کو اختیار کیا ہے اور اس کی شریعت میں کئی مثالیں موجود ہیں، رسول اللہ ؐ نے بعض اوقات دین کی عظیم تر حکمت کی خاطر مستحب اور اَولیٰ کام کو بھی ترک فرمایا ہے، بعض اوقات کسی رخصتِ شرعی پر عمل کرنے میں صحابۂ کرام کو تحفظ یا انقباض ہوتا تھا، تو رسول اللہ ؐ نے رخصتِ شرعی کی اباحت کے لیے خلافِ اَولیٰ کام بھی کیا اور یہ بحیثیتِ شارع آپ ؐ پر واجب تھا، جیسے سفرِ جہاد میں عصر کے بعد سرِعام رمضان کے روزے کو توڑنا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’حلال واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مُشتبَہ امور ہیں، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، سو جو مشتبہ امور سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو مشتبہ امور میں پڑ گیا، تواس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ممنوع چراگاہ کے ارد گرد اپنے مویشی چرائے۔ پس اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی چراگاہ میں گھس جائیں گے، سنو! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوع حدود ہوتی ہیں، سنو! اللہ کی ممنوع حدود اس کے مُحرّمات ہیں، سنو! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب وہ لوتھڑا صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے، سنو! وہ دل ہے (صحیح مسلم)۔ آج ہمیں جو مسئلہ در پیش ہے اس کے بارے میں رسول اللہ ؐ نے یہ احتیاطی حکم جاری فرمایا: ’’جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو انہیں نمازکا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دو، (سنن ابو داؤد)۔ برائی کے محرّکات سے بچنے کے لیے آپؐ نے فرمایا: ’’سیدنا ابوہریرہ نے نبی کریمؐ سے بیان کیا: بے شک اللہ نے ابنِ آدم پر اُس کے حصے کا زنا لکھ دیا ہے، وہ اسے لازماً پائے گا، پس آنکھ کا زنا (اجنبی عورت کو) دیکھنا ہے اور زبان کا زنا (فحش) باتیں کرنا ہے اور نفس (گناہ کی) تمنا کرتا ہے اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اُس کی تصدیق کرتی ہے اور تکذیب کرتی ہے، (بخاری)‘‘۔ المستدرک للحاکم میں بعض محرکاتِ زنا کا اضافہ ہے اور وہ یہ ہیں: ’’غیر محرم کو بوسا دینا، گناہ کی طرف دست درازی کرنا اور گناہ کی طرف چل کر جانا، سوائے اس کے کہ گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جولوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، ماسوا چھوٹے گناہوں کے، بے شک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے، (النجم: 32)‘‘۔ یعنی اگرگناہِ کبیرہ کے ان محرِّکات سے آگے بڑھ کر صریح گناہ میں مبتلا نہ ہوا، تو یہ صغیرہ گناہ ہے اور ان پر بھی اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہنا چاہیے۔