افغان طالبان کو جنگ کی دھمکی!

555

گزشتہ چند دن میں امریکی مقبوضہ افغانستان میں پے در پے حملوں کے بعد ایک طرف تو امریکا نے وہاں مزید ایک ہزار کمانڈوز بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور دوسری طرف افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہاہے کہ طالبان نے مذاکرات کا موقع کھودیا، اب ہمیں جنگ کے ذریعے امن تلاش کرنا ہوگا۔ اس سے قطع نظر کہ جنگ سے کبھی بھی امن حاصل نہیں ہوا، سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں 2002ء سے امریکا اور اس کے تمام صلیبی حواریوں کے خلاف جنگ جاری نہیں ہے۔ افغانستان میں پیدا ہونے والا 38 سالہ نوجوان تو گولیوں اور بموں کی ہولناک آوازیں سن کر اور بارود سے بھری فضا میں سانس لے کر ہی بڑا ہوا ہے۔ 1979ء میں سوویت یونین افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اور پاکستان کے کمیونسٹ عناصر تک کہتے تھے کہ سوویت یونین کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ باچا خان کے پیروکار بغلیں بجاتے تھے کہ سوویت یونین پاکستان میں اب آیا کہ اب آیا۔ جس وقت روسی ٹینک افغانستان کی سڑکوں کو پامال کررہے تھے اس وقت عبدالولی خان نے کہا تھا کہ مجھے تو افغانستان میں کوئی روسی ٹینک نظر نہیں آیا۔ لیکن اس طوفان بلاکو افغان مجاہدین نے ناکافی وسائل کے باوجود اپنے جذبہ حریت سے نہ صرف روکا بلکہ سوویت یونین ایسا پسپا ہوا کہ جن چھ مسلم ریاستوں پر اس نے برسوں سے قبضہ کر رکھا تھا انہیں بھی آزادی مل گئی۔ امریکا سمیت کئی دیگر قوتیں تو بہت بعد میں اس جنگ میں شریک ہوئی تھیں اور وہ بھی سامان جنگ کی فراہمی کی حد تک۔ افغان مجاہدین نے اس سے پہلے اپنے وقت کی سپر پاور برطانیہ کو اس بری طرح شکست دی کہ حملہ آور برطانوی فوج میں سے سوائے ایک لنگڑے ڈاکٹر کے کوئی نہیں بچا۔ جن کی نسلیں میدان جنگ میں پیدا ہوئیں انہیں افغان صدر اشرف غنی یہ کہہ کر ڈرارہے ہیں کہ اب جنگ کریں گے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ کابل انتظامیہ میں اپنے طور پر طالبان سے جنگ کرنے کی صلاحیت نہیں چنانچہ اشرف غنی کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکی فوج نکل گئی تو کابل حکومت صرف تین دن میں ڈھیر ہوجائے گی۔ لیکن چپے چپے پر اور بالخصوص کابل میں امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود حملے ہورہے ہیں۔ امریکا مزید ایک ہزار کمانڈوز بھیج رہا ہے جو امریکی ریاست لوزیانا میں تربیت حاصل کررہے ہیں۔ اسی کے ساتھ بھارت بھی 15 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کی تیاری کررہاہے جب کہ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چودھری کا کہناہے کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہاہے اور اسے جو کردار دیا گیا ہے اس کی وجہ سے وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کررہاہے۔ افغانستان میں بد امنی سے پاکستان متاثر ہورہاہے۔ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی نے کہاہے کہ امن کے لیے پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دنوں کابل میں ایمبولینس دھماکا حقانی نیٹ ورک نے کیا۔ امریکا کو یہ تو معلوم ہوگا کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان ہی سے اپنی کارروائیاں کررہاہے۔ امریکا، اس کے حواری اور کابل انتظامیہ اپنے آنگن کی صفائی کریں مگر افغان سفیر کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں، انہیں ختم کرنے کے لیے تمام ممالک کو متحد ہونا پڑے گا۔ پاکستان نہ صرف اس کی تردید کرتا ہے بلکہ اپنے تعاون کا ثبوت دیتے ہوئے افغان طالبان اور حقانی گروپ کے 27ارکان افغانستان کے حوالے کیے ہیں جن کی فہرست اشرف غنی نے آرمی چیف کو دورہ کابل میں دی تھی۔ کابل انتظامیہ افغانستان میں روپوش حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہی کو پاکستان کے حوالے کردے۔ لیکن پھر الزامات کس پر لگائے جائیں گے۔ امریکا افغانستان میں مزید ایک ہزار کمانڈوز بھیج کر دیکھ لے لیکن خود پینٹاگون کا کہناہے کہ کثیر رقم صرف کرنے کے باوجود امریکی فوجیوں میں پیشہ ورانہ مہارت پیدا نہیں کی جاسکتی۔ کوئی بھی جنگ صرف اسلحہ سے نہیں جذبے سے لڑی جاتی ہے اور امریکی فوجیوں میں اس کا فقدان ہے۔