کراچی (رپورٹ : خالد مخدومی)لا پتا افراد کی تلاش کے لیے بنائے کمیشن کی رپورٹ میں لاپتا افراد کے بارے میں حقائق لاپتا کرنے کا انکشاف ہو ا،کمیشن کی سرگرمیاں بھی رسمی اجلاسوں تک محدود ہیں ،مذکورہ کمیشن ان شہریوں کی دادرسی کے لیے بنایا گیاتھا جو نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا
ہونے کے بعد لاپتا ہو ئے تھے ، ملک بھر میں ایسے واقعات میں تیزی اور اس پر عوامی ردعمل کوکم کرنے کے لیے 2011ء میں کمیشن قائم کیاگیا تھا، کمیشن یاکستان کمیشن ایکٹ 1956ئکے تحت بنایا گیاتھا، جس کے قیام کا نوٹیفکیشن13 مارچ 2011ء کو جاری کیا گیا، اس نوٹیفکیشن کے مطابق کمیشن کولاپتا افراد کے حوالے سے آنے والی تمام درخواستوں پرکارروائی کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا تھا، کمیشن کسی بھی لاپتا شخص کی تلاش کے لیے پولیس سمیت تمام ایجنسیوں کو استعمال کرنے،کسی بھی جگہ چھاپا مارا کارروائی کرنے اور لاپتا شخص کی تلاش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تک تشکیل دے سکتاہے، تاہم عملاً ا س کمیشن نے ایک ڈاک خانہ سے زیادہ کو ئی کام انجام نہیں دیا بس درخواستیں وصول کیں، پولیس سمیت تمام اداروں کو ارسال کیں اور جن چند درجن افرادکے بارے میں ادا روں نے کچھ اطلاعات فراہم کر دیں ان کو آگے بڑھا دیا، کمیشن نے اختیارات رکھنے کے باوجود ان اداروں سے تفتیش نہیں کہ ان افرادکوکیو ں اورکس قانوں کے تحت برسوں قید میں رکھا گیا، اسی طرح کمیشن کی جانب سے ایسے متعدد افراد کی مبینہ مقابلوں میں ہلاکتوں کا بھی نوٹس نہیں لیا گیاجن کے لاپتا ہونے کے بارے میں بارے میں کمیشن کے پاس درخواستیں موجو د تھیں، کمیشن کی اپنی رپورٹوں کے ذریعے اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ فاٹا‘ سوات، فضا گھٹ اور لکی مروت سمیت دیگر مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن 2011ء کے تحت بنائے گئے حراستی مراکز میں ریگولیشن کے قواعد کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ان حراستی مراکز میں ایسے متعدد افراد موجود ہیں جن کو برسوں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، جسارت کی جانب سے کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت اورکمیشن کی توجہ ا س طرف مبذول کرانے کے باوجود کمیشن کی جانب سے مذکورہ حراستی مراکز کے دورے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی، اسی طرح کمیشن کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے کا کوئی نمائندہ جو جواب لے کر آتا ہے کمیشن کی جانب سے اس کو حرف آخر سمجھ لیا جاتا ہے، کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والی کارگردگی رپورٹ میں لاپتا افراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن لاپتا افراد کے حوالے سے حاصل ہونے والے حقائق کو بھی لاپتا کر دیتا ہے، برسوں سے لاپتا کسی شخص کی اچانک کسی مبینہ مقابلے میں ہلاکت کی خبر کو محض ایک جملے میں بتا دیا جاتا ہے کہ لاپتا شخص کی لاش اس کے لواحقین کو مل گئی جس کی ایک مثال یکم فروری 2018ء کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ ہے جس میں قتل، جعلی پولیس مقابلے اور دہشت گردی کے مقدمات میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں مارنے جانے والے کراچی کے رہائشی عمار ہاشمی کے بارے میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی لاش بھائی کے حوالے کر دی گئی، عمار ہاشمی کے بارے میں کمیشن کو ان کے لواحقین نے 2015ء میںآگاہ کیا تھا کہ اس کو نامعلوم افراد اغوا کرکے لے گئے ہیں، تاہم کمیشن نے ان کی اس طرح ہلاکت کے بارے میں کسی قسم کی تفتیش کرانے یا اپنی رپورٹ میں جعلی مقابلے میں ہلاکت کا تذکرہ نہیں کیا، قانونی حلقوں کے مطابق اس طرح کے رویوں اور انکھیں بند رکھنے کی پالسیوں سے ہی راؤ انور جیسے مجرم پیدا ہوتے ہیں۔