راؤ انوار کی عدم گرفتاری حساس اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھادیگی

358

کراچی (تجزیہ: محمد انور) عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود جعلی پولیس مقابلے کے ماسٹر مائنڈ معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو پورے صوبے کی پولیس تاحال گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے
میں ناکام ہے۔عدالت عظمیٰ نے جمعرات کو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو مفرور پولیس افسر راؤ انوارکو گرفتار کرنے کے لیے مزید 10 روز کی مہلت دیدی ساتھ ہی اے ڈی خواجہ کی گزارش پر عدالت عظمیٰ نے انٹیلی ایجنسیوں سے کہا کہ ایم آئی، آئی ایس آئی، آئی بی راؤ انوار کو ڈھونڈنے میں پولیس کو مکمل مدد فراہم کریں۔ عدالت عظمیٰ کے اس حکم کے باوجود اگر راؤ انوار کو گرفتار کرکے عدالت کے روبرو نہیں کیا جاسکا تو ملک کے تمام حساس تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ جائے گا۔ راؤ انوار کے ہر ” کامیاب پولیس مقابلے ” کے بعد جن ایجنسیوں کی بازگشت لوگوں میں عام ہوا کرتی تھی اور یہ بھی تاثر دیا جاتا تھا کہ ان ” مبینہ جعلی پولیس مقابلوں ” کا انعقاد کے پیچھے ایجنسیاں ہوتیں ہیں ورنہ محض ایک رینکر پولیس افسر کی کیا مجال کہ وہ ” ہتھکڑی پہنے ہوئے افراد سے مقابلہ کرکے انہیں ہلاک کردے۔ راؤ انوار کے پراسرار طور پر روپوش ہوجانے اور عدالت کے حکم پر بھی عدالت میں حاضر کیے جانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر کی ” پولیس گردی یا اس طرح کے جعلی مقابلوں سے کسی بھی ملکی ادارے یا اس سے وابستہ شخصیات کا کوئی تعلق کیسے ہوسکتا ہے اور کیوں ہوگا ؟ یہ تاثر صرف ملکی اداروں کو بدنام کرنے کوشش کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟۔ تاہم حساس افراد آئی جی اے ڈی خواجہ کی عدالت سے کی گئی اس استدعا پر کہ “انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کہا جائے کہ وہ ہماری معاونت کریں” یہ سوچنے اور سوال کرنے پر حق بجانب ہے کہ کیا اب تک ان اداروں نے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے پولیس سے تعاون نہیں کیا ؟ یا ان اداروں کے دائرہ کار میں ایسے مشکوک مقابلوں میں ملوث افراد کی گرفتاری اور گرفتاری کے لیے پولیس کی مدد کرنا شامل نہیں ہے ؟ خیال ہے کہ صوبائی پولیس چیف نے راؤ انوار کو نہ پکڑنے میں ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے مزید وقت لینے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کی معاونت کی درخواست عدالت کے سامنے بیان کی ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس چیف ہی کیا کسی بھی مقدمے کا تحقیقاتی افسر ضرورت پڑنے پر خود ہی نہ صرف کسی بھی شخصیت سے مدد حاصل کرسکتا ہے بلکہ قانون کے تحت دیگر مطلوبہ کارروائی بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے آئی جی کو عدالت سے مذکورہ تعاون طلب کرنے کی درخواست کی ضرورت نہیں تھی۔ ممتاز قانون دان بیرسٹر خواجہ نوید احمد نے اس حوالے سے جسارت کے استفسار پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ” کسی بھی فوجداری مقدمے میں تفتیش کے اختیارات قانون کے مطابق بے پناہ ہیں اور ہر شہری چاہے کسی ادارے سے تعلق رکھتا ہو تفتیشی افسر کے ساتھ تعاون کرنے کا پابند ہوتا۔ خواجہ نوید نے کہا کہ قانون کے تحت اور پولیس فورس کا افسر ہونے کے ناتے راؤ انوار کو عدالت کی ہدایت پر خود ہی پیش ہوجانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہ کرکے عدالت کے حکم کی توہین کی ہے اور آئندہ توہین عدالت کے مقدمے کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔