بجارانی کی پر اسرار ہلاکت

456

صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی پر اسرار ہلاکت افسوسناک واقعہ ہے تاہم یہ تعین نہیں ہوسکا کہ وزیر منصوبہ بندی کی ہلاکت منصوبہ بند قتل ہے یا خودکشی۔ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات اور دستیاب شواہد کے مطابق یہ خودکشی ہے اور اگر بجارانی نے خودکشی کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے پہلے اپنی بیوی کو قتل کیا پھر خود کو گولی ماری۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اس سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جس کے دوران میں تمام سرکاری کام ٹھپ رہیں گے۔ لیکن بہتر تھا کہ پہلے اس بات کا تعین ہوجاتا کہ واردات کس طرح ہوئی۔ اگر یہ خودکشی ہے تو بجارانی نے اس سے پہلے اپنی چوتھی بیوی کو قتل کیا۔ قاتل اور خودکشی کرنے والے کے لیے سوگ منانے کا کوئی جواز نہیں۔ خودکشی کرنا ایسا جرم ہے جس کی آخرت میں کوئی معافی نہیں ہے۔ اسی طرح جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے گویا پورے عالم انسانی کو قتل کردیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ تو یہی ہے اور اگر حکومت سندھ اس واردات کو قتل قرار دیتی ہے تو اسے اپنی نا اہلی کا سوگ منانا چاہیے کہ اس کا ایک وزیر اپنی بیوی سمیت اپنے گھر میں قتل ہوجاتا ہے جب کہ گھر کے باہر پولیس کے دو محافظ بھی تعینات تھے۔ جب حکومت کا ایک اہم وزیر اور پیپلزپارٹی کا دیرینہ رکن اس طرح قتل کردیا جائے تو عام آدمی کی کیا حیثیت ہے۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق میر ہزار خان بجارانی کو کنپٹی پر اس طرح گولی لگی ہے کہ گولی دوسری طرف سے پار ہوگئی۔ قاتل اتنے قریب سے گولی مارنے کا تکلف نہیں کرتا۔ پولیس کی اصطلاح میں اسے پوائنٹ بلینک فائر کہا جاتا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ گھر کے تمام دروازے اندر سے بند تھے۔ گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں جن کی مدد سے اصل صورتحال واضح ہوسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما مصر ہیں کہ یہ قتل کی واردات ہے لیکن اس کے لیے ثبوت درکار ہیں۔ گھر پر متعین گارڈز کا کہناہے کہ انہوں نے علی الصباح گھر سے جھگڑے کی آوازیں سنی تھیں۔ بجارانی کے دوستوں کا کہناہے کہ میاں بیوی میں کچھ عرصے سے کھٹ پٹ چل رہی تھی۔ اختلافات کس بات پر تھے، یہ ابھی واضح نہیں ہوا۔ بجارانی کی اہلیہ فریحہ نے چند ماہ پہلے ہی اپنے سابق خاوند سے بنگلے کی ملکیت کا مقدمہ جیتا تھا۔ میر ہزار خان بجارانی کی 1946ء کی پیدائش تھی اور اس وقت ان کی عمر 72 سال کے قریب تھی۔ شوہر اور بیوی میں اختلافات ہوں اور ساتھ رہنا ممکن نہ رہے تو بہتر ہے کہ علیحدگی اختیار کرلی جائے جیسے کہ مقتولہ فریحہ نے اپنے پہلے شوہر سے خلع لے لیا تھا۔ لیکن بعض لوگ اسے غیرت کا مسئلہ بنالیتے ہیں اور قتل و خون پر اتر آتے ہیں۔ جب کہ کسی کو قتل کرنا بھی بے غیرتی ہے اور اس میں اپنی جان بھی جاتی ہے۔ ہم ایک بار پھر حکومت سندھ کو متوجہ کریں گے کہ تین دن کا سوگ منانے سے پہلے معاملات کو صاف ہونے دیا جاتا۔ یہ صحیح ہے کہ بجارانی پیپلزپارٹی کے دیرینہ رکن کی حیثیت سے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے رکن بھی رہے اور کچھ عرصے کے لیے پیپلزپارٹی سے الگ بھی ہوگئے تھے لیکن کسی کے قتل پر حکومتوں کے کام رکتے نہیں ہیں۔