عارف بہار
حکومت نے مہنگائی سے بدحال عوام پر پٹرولیم مصنوعات میں پانچ روپے چورانوے پیسے تک کا اضافہ کرکے ایک اور بجلی گرادی ہے۔ وزرات خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پٹرول کی قیمت میں دو روپے اٹھانوے پیسے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پٹرول کی قیمت چوراسی روپے اکیاون پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت میں پانچ روپے بانوے پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد ڈیزل کی موجودہ قیمت پچانوے روپے پچاسی پیسہ مقرر ہو گئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا بڑھوتری کا تعلق صرف گاڑی مالکان سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ہر شہری کی زندگی اور حالات سے ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ کرائے بڑھتے ہی اشیائے خور ونوش کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے اور یوں مہنگائی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ملک میں حالیہ برسوں میں نہایت خاموشی کے ساتھ مہنگائی کا ایک سیلاب آگیا ہے۔ جس سے عام آدمی کی کمر دوہری ہوگئی ہے۔
سالانہ بجٹ پیش کرنا اب گناہ بے لذت ہو کر رہ گیا ہے۔ بجٹ میں اعداد وشمار کا کھیل کھیل کر معاملات کو نمٹایا جاتا ہے۔ وفاقی بجٹ کے بعد منی بجٹ لا کر عوام کا معاشی کچومر نکالا جاتا ہے۔ وفاقی بجٹ سے عوام کو اپنے ساتھ ہونے والی واردات کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتا تھا مگر منی بجٹ خاموش قاتل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ صارف جب بازار میں کوئی چیز خریدنے جاتا ہے تو اسے کسی شے کے مہنگا ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ بھی مہنگائی کے جن کو مزید بے قابو کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جن اشیاء کی قیمتیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی وجہ سے بڑھ جاتی ہیں وہ پٹرول کی قیمت کم ہونے کے بعد دوبارہ سستی نہیں ہوتیں۔ رنگ برنگے ٹیکسوں کے خلاف لوگ سراپا احتجاج تو تھے ہی کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں بھی اضافہ کردیا اور یہ اضافہ بھی غیر معمولی ہے۔ پاکستان کے عوام اس وقت ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ملک کو اس وقت معاشی بدحالی کی دلدل میں دھکیلنے والا عام آدمی نہیں بلکہ معاشی جادوگر، سویلین اور فوجی حکمران ہیں۔ جنہوں نے ایسی آزاد معاشی پالیسیوں کی بنیاد رکھنے سے گریز کیا جو ملک کو خودانحصاری اور خدا انحصاری کی راہ پر ڈالنے کا باعث بنتی۔ ان حکمران طبقات نے بے جا اصراف، نمود ونمائش، اللے تللوں کی روش اپنا کر ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک پر اصل حکمرانی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی معاشی اداروں کی رہی۔ یہ ادارے حکومتی اور ریاستی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آگئے۔ ایک کشکول گدائی مستقل طور پر قوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا۔ یہ دنیا کے چند ایسے ملکوں میں شمار ہونے لگا جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ اب جب سے امریکا اور پاکستان میں ٹھن گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکا کے زیر اثر مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگے ہیں۔ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور نئے قرضوں کی اجرائی کے لیے شرائط سخت سے سخت تر ہونے لگی ہیں۔ دفاعی خریداریوں اور تعلیمی نظام میں بھی ان اداروں کی مداخلت کا عمل تیز ہوتا جا رہا ہے۔ اب معاشی جادوگروں اور پالیسی سازوں کو خود انحصاری کا خیال آگیا ہے۔ کبھی ٹیکسوں میں اضافہ کرکے اور کبھی مہنگائی کے دیگر اسباب پیدا کرکے اس راہ پر چلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ بھی امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں کا پرانا مطالبہ رہا ہے۔ جب ہیلری کلنٹن بطور وزیر خارجہ پاکستان آئی تھیں تو انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ پاکستان امداد کا انتظار کرنے کے بجائے ٹیکسوں کا دائرہ وسیع کرے اور بھارت کے ساتھ تجارت کو فروغ دے۔
ٹیکسوں میں اضافہ بھی ایک حد تک عوام کے لیے قابل برداشت ہوتا ہے جب پانی سر کے اوپر سے گزر جائے تو پھر عوام ٹیکس سمیت پورے نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور عوامی بے چینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ عوامی بے چینی اور احتجاج میں بیرونی طاقتوں کو مصالحت اور سہولت کاری کے نام پر مداخلت کا موقع میسر آجاتا ہے۔ غریب عوام کی رگوں سے ٹیکس کے نام پر اور مہنگائی کے ذریعے خون کے آخری آخری قطرے نچوڑنا حکمران طبقات کے لیے سے آسان طریقہ ہے۔ غریب بے زبان ہوتا ہے۔ اس کی آواز نہ میڈیا میں زیادہ جگہ پاتی ہے نہ قانون ساز اداروں میں کوئی ان کی خاطر واک آؤٹ کرتا ہے۔ یہ قسمت کو رو دھو کر خاموش ہوجانے والا طبقہ ہوتا ہے۔ اصل اور آسان راستہ یہ ہے کہ ٹیکس کی زد دولت مندوں پر پڑے۔ ٹیکس نظام سے باہر اور اثاثے چھپانے والوں سے وصولی کرکے ملک کے معاشی مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ چوں کہ ہر دور کے معاشی پالیسی ساز خود اسی کلاس کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے وہ بالادست اور حکمران کلاس کے مفاد کو غیر محسوس طریقے سے تحفظ دے جاتے ہیں۔ اس وقت کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ غیر ملکی تجوریوں میں حکمران طبقات کی جائز وناجائز ذرائع سے کمائی گئی دولت کو قومی تحویل میں لے کر قرضوں کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔ ایک ایسے شخص کی جائز ذرائع سے کمائی گئی دولت بیرونی دنیا میں اکٹھی کرنا بھی غلط ہے کیوں کہ جو شخص ملک اور اپنے عوام پر حکمرانی کا دعوے دار اور خواہش مند ہو مگر اپنی دولت غیر ملکی تجوریوں میں جمع کرکے وہ عملی طور پر اپنے ملک اور ملک کے مالیاتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بلی کے گلے گھنٹی کون باندھے گا؟۔