کس طرح لکھتے ہو صاحب؟

622

احمد حاطب صدیقی

؂آج کا دور برقی خطوط کا دور ہے۔ ’صندوق البرید‘ روزانہ سیکڑوں برق ناموں سے بھر جاتا ہے۔ روز خالی کرنا پڑتا ہے۔ نہ کیجیے تو یہ اخلاق سے عاری ڈبّا گنجائش نہ ہونے کا عذر کرتے ہوئے بڑی بداخلاقی سے قارئین کے مزید خطوط کو واپس اُن کے منہ پر دے مارتا ہے۔ موصول ہونے والے بیش تر خطوط کا تعلق کالم نگار کی اپنی نگارشات سے نہیں ہوتا۔ (اب کسی کالم کے مندرجات پر کوئی آہ کرتا ہے نہ واہ!) اِن خطوط میں بالعموم کالم نگاری کے لیے من پسند موضوعات تجویز کیے جاتے ہیں۔ نِت نئے لوازمات پیش کیے جاتے ہیں، تصاویرِ بتاں اِرسال کرکے اُن پر (یعنی بتوں پر) نیک چلنی اور حق پرستی کی تبلیغ کرنے کی تلقین کی گئی ہوتی ہے۔ اب بھلا بتائیے کہ اِن بُتوں سے ۔۔۔ ’راہ میں ہم ملیں کہاں؟ بزم میں وہ بُلائیں کیوں؟‘ ۔۔۔ یہ خوش فہمی باوجود کوشش کے پیدانہ ہوسکی کہ ہمارے کالم عزیزم ٹرمپ سلّمہ سے لے کر میاں ممنون حسین تک سب ہی بڑے اشتیاق سے پڑھتے ہیں۔ مُشتاق رہتے ہیں کہ کب ہمارا کالم چھپ کرآئے، جھٹ پٹ پڑھیں اور فَٹافَٹ اُس کے علی الرغم پالیسی تشکیل دے کر اپنے باقی کام نمٹائیں۔
بسا اوقات دیگر کالم نگاروں کے کالموں کا عکس بھیج کرخط کشیدہ حصوں کا ’منہ توڑ جواب‘ دینے کو ہُشکارا جاتا ہے۔ (ایسے برقی خطوط عام طور پر خواتین اور طالبات کی طرف سے موصول ہوتے ہیں۔ منہ وغیرہ توڑنے کی تمنا عموماً اُنھی کو ہوتی ہے۔) ہمیں فرداً فرداً معذرت کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہے کہ ہر ایک کے آگے الگ الگ اعتراف کرسکیں کہ ہم میں اِتنا بوتا ہے نہ ہمت کہ ایک شخص کے پیچھے لٹھ لے کر پڑیں تو آٹھ دس کالموں تک اُسے دَنادَن ’لٹھیاتے‘ ہی چلے جائیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ راہِ حق میں راہ چلتوں سے گالی گلوچ نہیں کی جاتی۔ حکم یہ ہے کہ اگرکوئی گلیَر گالی دے بیٹھے تو لٹھ لے کر اور لاٹھ بن کر وہیں کھڑے نہ رہ جانا۔ ا سلاف کا طریقہ اختیار کرنا گالی سُن لینا اور:
’سامنے اپنی رہ گزر رکھنا!‘
آج کے کالم کا باعثِ تحریر بڑا دِلچسپ ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران میں متعدد افراد نے مختلف طریقوں سے رابطہ کیا۔ ریاض (سعودی عرب) سے محمد عارف صاحب، خیابانِ سرسید راولپنڈی سے فصیح الدین صاحب اور اِچھرہ لاہور سے نذیر احمد صاحب نے ٹیلی فون پر۔ لاہور، کراچی اور پشاور سے تین طالبات نے تحریری خطوط کے ذریعہ سے۔ کراچی اور لاہور کی دوطالبات نے ای۔میل کے ذریعہ سے۔ بہاولپور کے ایک طالب علم ذوالفقارعلی ناشادؔ اور نواب شاہ کے ایک طالب علم خورشید عالم نے بالمشافہ ملاقات کے ذریعہ سے۔ اوّل الذکر تین بزرگ اصحاب نے غالباً بربنائے تجسس کالم نگار اور اس کی کالم نگاری کی بابت کچھ مزے دار سوالات کیے ہیں۔ جب کہ طلبہ اور طالبات کی اکثریت کا تعلق ’اِبلاغِ عامّہ‘ کے شعبے سے ہے اور اُن کے سوالات کی نوعیت بھی بیش تر نصابی ہے۔ کچھ سوالات کے جوابات فرداً فرداً دے دیے گئے ہیں۔ البتہ ایک دِلچسپ سوال ایسا ہے کہ اُس کے لُطف میں تمام قارئین کو شریک کرلینے کا جی چاہا۔ یہ مُنفرد سوال کچھ یوں ہے: ’’وہ کون سا پیمانہ، یا وہ کیا معیار ہے، جس کی بنیاد پر آپ آج کے کالم کے لیے ’موزوں ترین موضوع‘ کا تعین کرتے ہیں؟‘‘
اِس سوال پر ہمیں ایک قصہ یاد آگیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب کو اپنی دستی گھڑی کے وقت کو معیاری پیمانے سے ملانے کا بڑا شوق تھا۔ شوق کیا؟ خبط تھا! سو اُنہیں کسی نے مشورہ دیا:
’’ریڈیو سے گھڑی ملالو۔ ریڈیو پاکستان کا بتایا ہوا وقت پاکستان کا مستند اور معیاری وقت ہوتا ہے‘‘۔
ملانے کو تو اپنی گھڑی اُنہوں نے ریڈیو سے ملالی۔ مگر سوچا:
’’آخر ریڈیو پاکستان والے بھی تو اپنی گھڑیاں کسی نہ کسی مستندپیمانے سے ملاتے ہوں گے کیوں نہ اُس سے رجوع کیا جائے‘‘۔
خیر کسی طرح تعلقات نکال کر وہ ریڈیو اسٹیشن میں جا داخل ہوئے۔ اُن کا سوال جس نے سُنا حیران رہ گیا۔ ہر حیرتی نے اُن کو یہی بتایا کہ:
’’ہر اِسٹوڈیو میں ایک دیواری گھڑی نصب ہوتی ہے، اُسی کو دیکھ کر سامعین کو بھی وقت بتادیا جاتا ہے‘‘۔
اِس جواب سے اُنہیں اطمینان نہ ہوا۔ اُنہوں نے حصولِ اطمینان کی خاطر مزید سوال کیا:
’’اگر کبھی کوئی گھڑی کسی وجہ سے رُک جائے یا خراب ہی ہوجائے تو آخر ٹھیک کرنے کے بعد اِن گھڑیوں کا وقت بھی توکسی نہ کسی مستند گھڑی سے ملایا جاتا ہوگا؟‘‘
جواب ملا: ’’جی ہاں! فلاں کمرے میں ہمارا ’ماسٹر کلاک‘ نصب ہے۔ اُسی کے معیاری وقت سے تمام گھڑیوں کا وقت ملا لیا جاتا ہے‘‘۔
پھر سوال کیا: ’’لیکن اگر کبھی ماسٹر کلاک ہی گڑبڑ کر جائے تو؟ ۔۔۔ تو آپ معیاری وقت کا تعین کیسے کرتے ہیں؟‘‘
بتایا گیا: ’’تو ہم بی بی سی سے وقت ملا لیتے ہیں‘‘۔
اُنہوں نے پوچھا: ’’بی بی سی والے کہاں سے وقت ملاتے ہیں؟ اور بی بی سے بھلا پاکستان کا معیاری وقت کیسے ملایا جاسکتا ہے؟‘‘
اُن کو بتایا گیا: ’’بی بی سی والے لندن میں واقع برطانوی پارلیمنٹ کے ٹاور میں نصب ’بِگ بین‘ سے اپنا وقت ملاتے ہیں، موسمِ گرما میں ہمارا وقت اُن سے ٹھیک پانچ گھنٹے آگے رہتا ہے، اور موسمِ سرما میں چارگھنٹے۔ اس طرح ہم پاکستان کے معیاری وقت کا تعین کرلیتے ہیں‘‘۔
قدرے مطمئن ہوئے اور فرمایا: ’’تو اصل پیمانہ تو وہ ہوا نا! کیا نام کہ بِگ بین!‘‘
بِچارے زرِکثیر خرچ کرکے کسی طرح لندن پہنچے۔ وہاں بِگ بین کے اُس عملہ سے رابطہ کیا جو گھڑی کی دیکھ بھال پر مامور رہتا ہے۔ عملہ سے پوچھا: ’’آخر وہ مُستند پیمانہ کیا ہے جس سے آپ اپنی گھڑی کے لیے درست ترین وقت کا تعین کرتے ہیں‘‘۔
جواب دیاگیا کہ: ’’یہ گھڑی صدیوں سے یوں ہی چل رہی ہے اور یہ خود ایک مستند پیمانہ ہے‘‘۔
اب جاکر اُنہیں اطمینان ہوا۔ مگر بجلی کی طرح ایک شک اُن کے ذہن میں کوندا اور اُنہوں نے اپنا شک دورکرنے کے لیے سوال کیا:
’’کیا یہ گھڑی کبھی خراب نہیں ہوئی؟‘‘
جواب ملا: ’’کیوں نہیں ہوئی؟ کئی بار ہوچکی ہے۔ مگر جیسے ہی رُکتی ہے، فوراً کاری گَروں کو بُلاکر مرمّت کر والی جاتی اور پھر چل پڑتی ہے‘‘۔
پوچھا: ’’تو یہ بتائیے نا کہ خراب ہونے اور رُکنے کے بعد جب آپ یہ گھڑی دوبارہ رواں کرتے ہیں تو اِس کا وقت کہاں سے ملاتے ہیں؟‘‘
جواب مل: ’’یہ کون سا مسئلہ ہے؟ اُس وقت جو بھی راہ گیر یہاں سے گزر رہا ہوتا ہے اُس کو آواز دے کر پوچھ لیتے ہیں کہ ’ہے مسٹر! تُمہاری گھڑی میں بالکل ٹھیک ٹھیک کیا وقت ہوا ہے؟‘ جو وقت وہ بتاتا ہے، اُس سے گھڑی ملا لیتے ہیں!‘‘
تو اے صاحبو! ہمارا بھی ’آج کا موزوں ترین موضوع‘ طے کرنے کا پیمانہ یہی ہے۔ مثلاً آج ہی کے کالم کا موضوع دیکھ لیجیے!