ایک مرتبہ امریکی صدر بارک اوباما نے غصے میں پریس کانفرنس کے بعد دروازے کو لات ماری تھی۔ لوگ اس کا سبب نہیں جان سکے تھے لیکن سبب وہی تھا جو آج ٹرمپ کے منہ سے جھاگ نکلنے کا ہے۔ اس وقت اوباما بش کی ہاری ہوئی جنگ کا ملبہ افغانستان سے لانے کا فریضہ انجام دے رہے تھے، غصہ تو آنا چاہیے۔ جس وقت اوباما نے دروازے کو لات ماری تھی اس وقت امریکی افواج افغانستان میں طالبان سے لاتیں کھارہی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اوباما پریس کانفرنس میں امریکا کی کامیابی کا اعلان کررہے تھے۔ آج بھی یہی صورتحال ہے اس وقت افغانستان کا 40 فی صد حصہ طالبان کے کنٹرول میں تھا آج 70 فی صد طالبان کے کنٹرول میں ہے یہ بات طالبان نے نہیں کہی بلکہ یہ امریکا کے سرکاری نگران ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن کی رپورٹ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو بھی کہہ رہے ہوں اسپیشل انسپکٹر جنرل یہ کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی قوت اور کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں اور امریکا اپنا کنٹرول کھوتا جارہا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 14 اضلاع تو مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور 263 اضلاع میں افغان طالبان کھلے عام گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ افغان حکومت کا کنٹرول بہت محدود ہے اور امریکی زیر اثر علاقے بالکل ہی کم ہیں۔ امریکیوں کے لیے کسی ملک میں بمباری کرنا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا لیکن 2017ء ایسا سال گزرا ہے کہ اس دوران ہونے والی بمباری سے شہریوں کی ہلاکتوں میں واضح اضافہ ہوا جس کے سبب افغان حکومت کیخلاف عوام کی نفرت میں اضافہ ہوگیا۔ ظاہری بات ہے افغان عوام صرف اپنی حکومت سے نفرت نہیں کررہے بلکہ ان کو اس حکومت کے سرپرستوں سے بھی نفرت ہی رہی ہے نتیجتاً امریکیوں کو اپنے عوام کو مطمئن کرنا مشکل ہورہا ہے کیوں کہ امریکی فوجیوں کی لاشوں کی آمد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اگر چہ امریکی اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کو بیک وقت ظاہر نہیں کرتے۔ اس کے بارے میں ایک مرتبہ ہم نے لکھا تھا کہ یہ اس طرح ہلاکت کی خبر دیتے ہیں۔ امریکی گشتی فوجی پارٹی کی گاڑیاں فلاں علاقے میں بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں ایک فوجی ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں دو فوجی اسپتال میں دم توڑ گئے۔ پھر تین دن بعد یہ خبر کہیں چھوٹی سی لگ جاتی ہے کہ بارودی سرنگ کے دھماکے میں زخمی ہونے والے دو فوجی ہلاک ہوگئے۔ حالاں کہ یہ پانچوں ایک ساتھ مرے تھے۔ ان پر وہی مثال صادق آتی ہے جو پانچ چوہوں کے مرنے کی تھی۔ امریکی اپنے سپاہیوں کی خودکشی کی خبر اس طرح دیتے ہیں کہ گھر سے دوری کی وجہ سے نفسیاتی عارضے میں مبتلا فوجی نے خودکشی کی کوشش کی۔ بعد میں مر گیا۔
امریکیوں اور پانچ چوہوں کے مرنے والی خبر اس طرح ہے کہ پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار ۔۔۔ ایک چوہے کو آگئی کھانسی (ہوم سکنیس) باقی رہ گئے چار۔۔۔ ایک چوہا رہ گیا پیچھے باقی رہ گئے تین، ایک چوہے کو کھاگئی بلی۔۔۔ باقی رہ گئے دو۔۔۔ ایک چوہے نے بات نہ مانی (غالباً آخری چوہے کی) باقی رہ گیا ایک ، ایک چوہے نے کرلی شادی ۔۔۔ یوں ہوئی بربادی۔ شاید نظم کی ترتیب بدل گئی ہو یا کوئی مصرع کم ہوگیا ہو لیکن بربادی پر سب کا اتفاق ہے۔ اب ٹرمپ کے منہ سے جھاگ کا مطلب یہی ہے کہ ان کے چوہے ایک ایک کرکے مارے جارہے ہیں کبھی سبب ہوم سکنیس یعنی گھر سے دوری ہونے سے کبھی طالبان ماردیتے ہیں کبھی بچے مارتے ہیں، نتیجہ وہی ہے جو بش اور اوباما کے ادوار میں تھا۔ اوباما کو بش کا ملبہ اٹھانا تھا اس لیے لات ماری ٹرمپ کو دونوں کا ملبہ اٹھانا ہے اس لیے منہ سے جھاگ بھی نکل رہا ہے اور افغانستان سنبھل نہیں رہا ایک ارب ستر کروڑ مسلمانوں کو ختم کرنے چلے ہیں۔ ٹرمپ نے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں تو اب جنگ ہوگی۔۔۔ تو بھیا اب تک کیا کررہے تھے تمہارے چوہے تین دہائیوں سے تو یہی کہتے آرہے ہو امریکیوں سے کہ ہم افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کررہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس کا بش کا ملبہ اوباما نے اٹھایا اور ان دونوں کا ملبہ ٹرمپ کو اٹھانا ہے۔۔۔ یہ تو ہوتا ہی ہے۔ ایک حکمران کا ملبہ دوسرا اٹھاتا ہے لیکن ان سب کی حماقتوں کا ملبہ امریکی قوم کو اٹھانا ہے اور وہ ہے کہ میڈیا کے ہاتھوں یرغمال ہے اسے پتا ہی نہیں کہ اس کے ٹیکس کی رقم کہاں جارہی ہے۔ ایک مفروضہ دشمن کے پیچھے اربوں ڈالر جھونکے جارہے ہیں اب بظاہر 33 ارب ڈالر کا حساب مانگ رہے ہیں یہ امریکی ٹیکس دہندگان کو خوش کرنے کے لیے ہے ورنہ اب 66 ارب ڈالر جھونکنے کی تیاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راستہ اب بھی پاکستان ہی سے گزرے گا۔ ٹرمپ کی دھمکیاں، ٹوئٹ، پاکستان سے حساب طلب کرنا، سارا غصہ افغانستان میں شکست سے تعلق رکھتا ہے۔ امریکی صدر فرماتے ہیں کہ نئے انداز سے جنگ لڑیں گے اور یہ نیا انداز کیسا ہوگا وہ یہ ہے کہ امریکی کمانڈوز کو پاکستان اور افغانستان میں کارروائی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ایک ہزار کمانڈوز کو افغانستان اور پاکستان میں کارروائی کا اختیار دیدیا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ انہیں تمام وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ اس اعلان سے دو باتیں سامنے آئیں کہ ایک تو ابھی تک جتنے امریکی کمانڈوز پاکستان اور افغانستان میں کارروائی کررہے تھے انہیں کارروائی کا اختیار نہیں تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب تک جو کمانڈوز افغانستان اور پاکستان میں کارروائی کررہے تھے ان کو تمام وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے تھے۔ اس پر تو امریکی کمانڈوز کو سوال کرنا چاہیے ان کمانڈوز کے ورثا تو سوال کر ہی سکتے ہیں جو افغانستان میں انجان جنگ لڑنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ دیکھیں ٹرمپ کے منہ سے اڑنے والے جھاگ کو کون صاف کرے گا۔ یا پھر امریکیوں کے ٹیکس پر یہی تماشا چلتا رہے گا۔ خدانخواستہ خجالت میں پاکستان پر بمباری کردی جائے لیکن طاقت کے ذریعے افغانستان میں کامیابی کا بھوت اب تو اتر جانا چاہیے۔