عدلیہ اور آمریت کے پروردہ

169

عدالت سے نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف نے توقعات کے عین مطابق اپنے پر جوش حمایتی نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر دی گئی سزا کو مسترد کر دیا ہے ۔ یہ سزا ہی کیا ، میاں نواز شریف اور ان کے تمام حواری پوری عدلیہ کو مسترد کر چکے ہیں اور ہر فیصلے پر میں نہ مانوں کی رٹ لگا رہے ہیں ۔ انہوں نے کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ کے لمبے ہاتھ منتظم اعلیٰ ( وزیر اظم ) کو قابو کرنے کے بعد اب پارلیمان تک پہنچ گئے ہیں ۔ ان کی بیٹی مریم نواز بھی بڑھ چڑھ کر بول رہی ہیں اور انہوں نے عدلیہ کو ’’ انتقامی عدالت‘‘ قرار دے د یا ہے ۔ دوسری طرف عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت پر نہال ہاشمی اور طلال چودھری کے بعد ایک اور وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز کو بھی طلب کر لیا ہے ۔ دانیال عزیز سابق صدر اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے بہت قریبی ساتھی بلکہ انہی کے پر وردہ تھے اور اب میاں نواز شریف کے معتمد ساتھی ہیں ۔ میاں نواز شریف کا تختہ دانیال عزیز کے باس پرویز مشرف ہی نے اُلٹا تھا ۔ میاں نواز شریف نے سابق آمر کے کئی پسماندگان کو اپنے آغوش میں لے رکھا ہے ، شاید یہ سوچ کر کہ ان کی مدد سے وہ بھی پرویز مشرف کی طرح 9 سال گزار لیں گے ۔ اپنے خطاب میں انہوں نے فرمایا کہ جمہوریت پر یلغار میں عدلیہ نے ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیا ۔ بات تو سچ ہے لیکن جمہوریت کے چیمپئن کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک سب ہی نے آمروں کا ساتھ دیا ۔ بلاول زرداری کو تو یہ بات شاید کسی نے نہ بتائی ہو کہ ان کے نانا بھی آمریت کی پیدا وار تھے جو میجر جنرل صدر اسکندر مرزا کا انتخاب تھے اور انہوں نے جاتے جاتے تحفے میں جنرل ایوب خان کو دے دیا تھا ۔ وہ اس آمر کو ڈیڈی کہتے تھے اور اقتدار میں بھی فوج کی مدد سے آئے ۔ ان کی والدہ محترمہ بے نظیر نے یہ بے نظیر کام کیا کہ فوج کو تمغائے جمہوریت عنایت کیا ۔ جنرل اسلم بیگ مرحومہ کے ’’انکل‘‘ تھے۔ آمروں کا ساتھ دینے پر تنقید کرنے والے میاں نواز شریف کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں پنجاب کے مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر جنرل غلام جیلانی کا انتخاب تھے اور پہلے صوبائی وزیر خزانہ بنے ، پھر وزیر اعلیٰ پنجاب ۔ جنرل ضیاء الحق سے ان کے بھی گھریلو تعلقات تھے ۔ ایسے لوگ جب آمروں اور آمریت پر تنقید کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے ۔ عدلیہ نے جمہوریت پر یلغار میں اگر آمروں کا ساتھ دیا تو عدلیہ پر حملہ کرنے والوں نے کیا کیا ۔ لیکن یہ افسوس ناک ماضی ہے چنانچہ اب ہوش وخرد سے کام لے کر آگے بڑھنا چاہیے ۔ میاں نواز شریف کو اب یاد آیا ہے کہ مولوی تمیز الدین سے لے کر پاناما کیس تک کے فیصلوں کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن بنانا چاہیے ۔ پاناما کی زد میں تو میاں نواز شریف آئے ہیں اور تلملا رہے ہیں لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال کی حکمرانی اور اس سے پہلے دوبار وزیر اعظم رہتے ہوئے انہیں کبھی مولوی تمیز الدین کیس یاد نہیں آیا ۔ اب بھی اگر ان پر زد نہ پڑتی تو انہیں یاد نہ آتا کہ وہ کیا معاملہ تھا ۔ کہتے ہیں کہ عدلیہ کا احترام ضروری لیکن وہ بھی دوسروں کی عزت کرے ۔ کیا عدلیہ کے جج بھی گلی گلی نواز شریف اور ان کے حواریوں کے لیے وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جو ان کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے ۔ نئے انتخابات سر پر ہیں ، عدلیہ سے محاذ آرائی کے بجائے ان کی تیاری کریں، ہجوم پر بھروسہ نہ کریں ۔ کھیل کھیلا جا رہا ہے تو یہ یکطرفہ نہیں ۔