امریکی جرائم اور عدالت انصاف

219

بین الاقوامی عدالت انصاف اس بات کا تعین کر رہی ہے کہ آیا افغانستان میں ہونے والے واقعات کو جنگی جرائم قرار دے کر تحقیقات کی جائے یا نہیں۔ افغانستان کے متاثرہ افراد کی درخواستوں کی چھان بین کر کے دیکھا جائے گا کہ تحقیقات کس نکتے پر مرکوز کی جائے ۔ 2017ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے افسر استغاثہ نے کہا تھا کہ اس بات کی مضبوط بنیاد موجود ہے کہ جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا ہے اور ان جرائم کے پیچھے ممکنہ طور پر سی آئی اے اور افغان فورسز کا ہاتھ ہو سکتا ہے ۔ افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم کے خلاف بھی درخواستیں دی گئی ہیں جن پر ایک عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات لگ رہے ہیں لیکن وہ اس وقت خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے ترکی میں مقیم ہیں ۔ افغانستان پر امریکی اور اس کے صلیبی حواریوں کے قبضے کے بعد سے اب تک جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے ویسے تو وہ سارے کا سارا جنگی جرائم میں شامل ہے کیونکہ بغیر کسی ثبوت کے امریکا اپنے 40 حواریوں کی فوج لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اور ہر طرح کے مظالم کی انتہا کر دی تھی ۔ نیو یارک کے تجارتی مرکز پرطیاروں کے حملے کا ڈراما ہی مشکوک تھا اس کے باوجود اس میں کسی افغان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ جن کے خلاف ثبوت بنائے بھی گئے ان کا تعلق سعودی عرب سے تھا جس سے امریکا کے گہرے تعلقات ہیں ۔ امریکا کو افغانستان پر قبضے کا کسی بھی قانون کے تحت کوئی حق نہیں تھا ۔ لیکن اس پر اقوام متحدہ بھی دم سادھے بیٹھی رہی ۔ اور افغانستان میں قتل عام ہوتا رہا ۔ اس قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق عالمی قانون نے دیا ہے کہ غیر ملکی قابضین سے جنگ کرنا جائز ہے ۔ یہی حق جرمنی کے خلاف برطانیہ ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کو دیا گیا تھا کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے کئی یورپی ممالک پر قبضہ کر لیا تھا ۔ فرانس نے تو اس قبضے کے بعد برطانیہ میں جلا وطن حکومت بھی قائم کر دی ۔ یہی حق افغان مجاہدین استعمال کر رہے ہیں اور یہی حق اس سے پہلے سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا ۔ لیکن امریکی جارحیت پر پوری دنیا نہ صرف خاموش ہے بلکہ اپنے ملک کی آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے ۔ امریکا نے افغانستان پر قبضے کے بعد اندھا دھند قتل عام کیا اور جس بری طرح بمباری کی گئی اسے کار پٹ بمبنگ کا نام دیا گیا یعنی بارود کا فرش بچھا دیا ۔ ایک اور اصطلاح ’’تورا بورا‘‘ ایجاد ہوئی جس میں افغانستان کے پہاڑوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ۔ یہ اصطلاح پاکستان پر حکمران اور امریکی درندگی کے سہولت کار پرویز مشرف کے درباریوں کو بھی پسند آئی اور وہ کہتے تھے کہ امریکا کا ساتھ نہ دیا تو وہ پاکستان کو تورا بورا بنا دے گا اور پتھر کے دور میں بھیج دے گا ۔ امریکا اور اس کے ناٹو حواری پوری قوت استعمال کر کے اب تک افغانوں کو تو پتھروں کے دور میں نہیں بھیج سکے لیکن پاکستانی حکمران اپنے ایوانوں میں بیٹھے کپکپاتے رہے ۔ بہیمانہ حملوں کے علاوہ بھی بزدل امریکی دشمنوں نے بے شمار ایسے جنگی جرائم کیے جن پر انسانیت شرما جائے ۔ مثلاً بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھے امریکی درندے افغان بچوں کے سامنے ٹافیاں پھینکتے اور وہ اٹھانے لگتے تو انہیں گاڑی سے کچل دیا جاتا ۔ افغانوں کو مار کر لاشیں دریا میں پھینکی گئیں ۔ ایسی تصویریں موجود ہیں جن میں امریکی فوجی افغانوں کی لاش پر پیشاب کر رہے ہیں ۔ اس کے باجود عالمی عدالت انصاف ابھی اس کشمکش میں ہے کہ ایسے واقعات کو جنگی جرائم قرار دے کر تحقیقات کی جائے یا نہیں ۔ چونکہ ان معاملات میں امریکا اور اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ملوث ہے اس لیے عالمی عدالت انصاف کے ججوں کے ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔ سی آئی اے ایسے خونخوار بھیڑیوں کا غول ہے جس نے دنیا بھر میں جگہ جگہ اپنے مظالم کا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ چنانچہ امریکا کسی بھی تحقیقات کی اجازت نہیں دے گا ۔ اس سے پہلے بھی امریکی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ ایسی تحقیقات سے امریکی فوجیوں کا ’’مورال ڈاؤن‘‘ ہو گا ۔ یعنی درندوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔ صرف افغانستان ہی کیا ،اگلے سال ایک عالمی جھوٹ بول کر امریکا عراق پر حملہ آور ہو گیا ۔ وہاں بغداد کی جیل میں قیدیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کی تو فلمیں بھی سامنے آ چکی ہیں ۔ مجبور قیدیوں پر سفاکی کا مظاہرہ کرنے میں امریکی خواتین فوجی بھی کسی سے پیچھے نہیں بلکہ سب سے آگے تھیں ۔ لیکن اسے شاید جنگی جرم نہیں سمجھا گیا ۔ عراق کے صدر صدام حسین کو پھانسی دینا بھی جنگی جرم تھا کیونکہ وہ امریکا پر حملہ آور نہیں ہوا تھا ۔ اس کے بعد لیبیا میں بھی جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پورا امریکا ہی جنگی مجرم ہے اور اس کے ہر فوجی پر مقدمہ چلنا چاہیے ۔ لیکن یہ کام کرے گا کون؟