اینگرو ساحلی ماحولیاتی تحفظ کے لیے ورلڈ وائڈ فنڈ کے ساتھ کام کر رہا ہے

447

رکن ممالک کا سمندری کچھووں کے تحفظ کیلئے بڑھتے ہوئے علاقائی روابط کا مطالبہ

جنگلی حیات نے سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں 29تا30 جنوری کو میزبانی کی۔ اس اجلاس کو اینگرو فاو¿نڈیشن نے سپورٹ کیا جو ساحلی برادری کے ماحولیاتی تحفظ کیلئے ورلڈ وائڈ فنڈ(WWF) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور 2018 میں جنگلی حیات کی مینجمنٹ کے منصوبے کے آغاز کیلئے پرعزم ہے۔ پاکستان نے ہرے کچھووں کی بہتری کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جو پاکستان کی ساحلی پٹی پر پائے جاتے ہیں لیکن بقیہ سال غائب ہو جاتے ہیں۔ Olive Ridley Turtles پاکستانی پانیوں میں جال میں پکڑے جاتے ہیں لیکن یہ گھر بنانے کیلئے ساحل پر نہیں جاتے۔ تعلیم کی اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اینگرو اور WWF پاکستان کچھووں کی افزائش کا مینجمنٹ پروگرام شروع کریں گے اور ہزار کچھوے ٹیگ کریں گے اور مزید 10 کچھووں کا سیٹلائٹ کے ذریعے سراغ لگائیں گے اور وہ جہاں بھی جائیں گے ان کی اس وقت کی فوری موجودگی کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔ اینگرو پاکستان نے WWF پاکستان کی مدد سے اگست 2016 میں اپنے پروگرام کا آغاز کیا تھا جس میں پاکستان کی تین یونین کونسلوں کو ہدف بنایا گیا اور اس نے فشر گروپوں، محکمہ فشریز اور نجی سیکٹر سے اشتراک کیا ہے تاکہ غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے اور زیادہ سے زیادہ آگاہی مہم کے ذریعے سمندری ایکو سسٹم پر دباو¿ میں کمی کیلئے مینجمنٹ اور انتظامی اصلاحات کر کے ریہڑی، ابراہیم حیدری اور کاکاپیر میں بہتر فشریز مینجمنٹ کو فروغ اور اسے سپورٹ کیا جا سکے۔اینگرو فاو¿نڈیشن کے سربراہ امان الحق نے کہا کہ ہم WWF پاکستان کے ساتھ کام کر کے بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں اور اس جیسی ورکشاپ کے ذریعے شراکت دار ملکوں کی مدد سے ہماری نظریں بڑھتے ہوئے علاقائی تعاون پر مرکوز ہیں جس سے علاقائی سائنسدانوں کو تخلیقی ڈیٹا بیس تک رسائی اور کچھووں کی محفوظ ریلیز کی اطلاعات اور ٹیگنگ پروگرام میں مدد ملے گی۔ اینگرو کو بھرپور امید ہے کہ ان سائنسدانوں اور تحفظ پسندوں کی اعلیٰ مہارت اور علم کی بدولت سمندری حیات کے تحفظ کی کامیاب نشونما اور بحالی کے ایکشن پلان پر عمل میں مدد ملے گی۔اجلاس میں شریک رکن ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ اور سری لنکا کے کچھووں کے ماہرین اور حکومتی آفیشلز کو خطے کے دیگر ماہرین اور این جی اوز نے بھرپور سپورٹ کیا۔ گروپ نے NIO-MTTF کے رکن ممالک کے درمیان علاقائی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس کے دوران سمندری کچھووں کو درپیش مختلف مسائل پر بھی بحث کی گئی۔ رکن ممالک کے جانب سے بتایا گیا کہ ساحل پر کچھووں کی افزائش کا مقام ترقیاتی سرگرمیوں اور سمندری آلودگی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حادثاتی طور پر فشریز کی سرگرمیاں اور خفیہ نیٹ کی وجہ سے بھی کچھووں کو شدید خطرات کاٍ سامنا ہے۔اجلاس کے نتیجے کے طور پر ایک علاقائی ایکشن پلان مرتب کیا گیا۔ ٹاسک فورس میں تجویز پیش کی گئی کہ NIO کے رکن ممالک کو دیگر ملکوں کے بہترین طریقوں کو اپنانا چاہیے۔ اس کے پلاسٹک کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور آگاہی مہم چلانے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ رکن ملکوں نے متعلقہ قانون سازی کے موثر اطلاق، ہلاکتوں میں کمی اور سیٹلائٹ اور Flipper tagging سمیت باہمی تعاون کی تحقیق کے اقدام اور کچھووں کی جینیاتی تحقیق کا عزم ظاہر کیا گیا۔ رکن ملکوں نے مقامی برادریوں کا کچھووں کے تحفظ کی سرگرمیوں میں موثر شرکت یقینی بنانے کیلئے مستقل ذریعہ معاش کے فروغ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔

IOSEA سمندری کچھووں کی مفاہمتی یادداشت کے کوآرڈینیٹر ہیڈرن فرش وکانما نے ممالک کے دستخط کی حامل مفاہمتی یادداشت کے مقصد کو اجاگر کیا جہاں اس کا ہدف سمندری کچھووں اور ان کی رہائش گاہوں کے تحفظ مینجمنٹ کیلئے مل کر کام کرنا ہے۔ انہوں نے بات پر زور دیا کہ MTTF کا اہم کردار علاقائی تعاون کو مضبوط تر کرنا اور رکن ملکوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔ اس طرح کے اجلاسوں سے ایک ملک کو سائنسی ڈیٹا اور تجربات کے تبادلے کا موقع ملتا ہے۔ انہوں نے بحر ہند، جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں سمندری کچھووں کیلئے اہمیت کی حامل نیٹ ورک آف سائٹس پر بھی روشنی ڈالی اور جن جگہوں کی نامزدگی کی جا سکتی ہے ان کے بارے میں سوچنے کیلئے ٹاسک فورس کے قیام کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

اجلاس میں حکومتی نمائندوں میں سے ایک، حکومت پاکستان کی وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ثمر حسین خان پاکستان میں حیاتیات کے تحفظ کے پروگرام میں آگاہی اجاگر کرنا اور برادری کی موثر دلچسپی اہم اجزا میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف قوانین کے تحت کچھووں کی برآمدات اور مقامی سطح پر گھریلو کھپت کی سختی سے ممانعت ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے اہم افزائش کی سائٹس کو Rasmar sites قرار دیا ہے جس میں جزیرہ استولا اور جیوانی کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔

اس موقع پر WWF پاکستان کے منیجر میرین پروگرام عمیر شاہد، سری لنکا میں محکمہ برائے تحفظ جنگلی حیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر میرین چنا وراویرا، مالدیپ کے ڈائریکٹر جنرل ابراہیم نعیم، امریکا کے میرین ٹرٹل ایکولوجی کے ریسرچ سائنسدان اور تشخیصی پروگرام ڈاکٹر منوج تیواڑی، دکشن فاو¿نڈیشن انڈیا کے فیلڈ ڈائریکٹر مرلی دھرن، سری لنکا کی بائیو کنزرویشن سوسائٹی کے چیئرمین ڈاکٹر للت ایکانائیکے، تحقیق دان روزالنڈ میری کرنن باو¿ن اور بھارت کی FLAME یونیورسٹی کے مطالعہ ماحولیات کی پروفیسر ڈاکٹر اینڈریا فلٹ نے بھی گفتگو کی۔
اینگرو ساحلی کے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ورلڈ وائڈ فنڈ کے ساتھ کام کر رہا ہے
رکن ممالک کا سمندری کچھووں کے تحفظ کیلئے بڑھتے ہوئے علاقائی روابط کا مطالبہ

کراچی: سمندری کچھووں کے تحفظ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کیلئے CMS IOSEA میرین ٹرٹل MOU کی جانب سے قائم کی گئی ناردرن انڈین اوشین میرین ٹرٹل ٹاسک فورس(NIO-MTTF) نے اپنے دوسرے اجلاس کا انعقاد کیا جس کی محکمہ برائے تحفظ جنگلی حیات نے سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں 29تا30 جنوری کو میزبانی کی۔ اس اجلاس کو اینگرو فاو¿نڈیشن نے سپورٹ کیا جو ساحلی برادری کے ماحولیاتی تحفظ کیلئے ورلڈ وائڈ فنڈ(WWF) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور 2018 میں جنگلی حیات کی مینجمنٹ کے منصوبے کے آغاز کیلئے پرعزم ہے۔ پاکستان نے ہرے کچھووں کی بہتری کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جو پاکستان کی ساحلی پٹی پر پائے جاتے ہیں لیکن بقیہ سال غائب ہو جاتے ہیں۔ Olive Ridley Turtles پاکستانی پانیوں میں جال میں پکڑے جاتے ہیں لیکن یہ گھر بنانے کیلئے ساحل پر نہیں جاتے۔

تعلیم کی اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اینگرو اور WWF پاکستان کچھووں کی افزائش کا مینجمنٹ پروگرام شروع کریں گے اور ہزار کچھوے ٹیگ کریں گے اور مزید 10 کچھووں کا سیٹلائٹ کے ذریعے سراغ لگائیں گے اور وہ جہاں بھی جائیں گے ان کی اس وقت کی فوری موجودگی کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔ اینگرو پاکستان نے WWF پاکستان کی مدد سے اگست 2016 میں اپنے پروگرام کا آغاز کیا تھا جس میں پاکستان کی تین یونین کونسلوں کو ہدف بنایا گیا اور اس نے فشر گروپوں، محکمہ فشریز اور نجی سیکٹر سے اشتراک کیا ہے تاکہ غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے اور زیادہ سے زیادہ آگاہی مہم کے ذریعے سمندری ایکو سسٹم پر دباو¿ میں کمی کیلئے مینجمنٹ اور انتظامی اصلاحات کر کے ریہڑی، ابراہیم حیدری اور کاکاپیر میں بہتر فشریز مینجمنٹ کو فروغ اور اسے سپورٹ کیا جا سکے

۔اینگرو فاو¿نڈیشن کے سربراہ امان الحق نے کہا کہ ہم WWF پاکستان کے ساتھ کام کر کے بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں اور اس جیسی ورکشاپ کے ذریعے شراکت دار ملکوں کی مدد سے ہماری نظریں بڑھتے ہوئے علاقائی تعاون پر مرکوز ہیں جس سے علاقائی سائنسدانوں کو تخلیقی ڈیٹا بیس تک رسائی اور کچھووں کی محفوظ ریلیز کی اطلاعات اور ٹیگنگ پروگرام میں مدد ملے گی۔ اینگرو کو بھرپور امید ہے کہ ان سائنسدانوں اور تحفظ پسندوں کی اعلیٰ مہارت اور علم کی بدولت سمندری حیات کے تحفظ کی کامیاب نشونما اور بحالی کے ایکشن پلان پر عمل میں مدد ملے گی۔اجلاس میں شریک رکن ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ اور سری لنکا کے کچھووں کے ماہرین اور حکومتی آفیشلز کو خطے کے دیگر ماہرین اور این جی اوز نے بھرپور سپورٹ کیا۔ گروپ نے NIO-MTTF کے رکن ممالک کے درمیان علاقائی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس کے دوران سمندری کچھووں کو درپیش مختلف مسائل پر بھی بحث کی گئی۔ رکن ممالک کے جانب سے بتایا گیا

ساحل پر کچھووں کی افزائش کا مقام ترقیاتی سرگرمیوں اور سمندری آلودگی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حادثاتی طور پر فشریز کی سرگرمیاں اور خفیہ نیٹ کی وجہ سے بھی کچھووں کو شدید خطرات کاٍ سامنا ہے۔اجلاس کے نتیجے کے طور پر ایک علاقائی ایکشن پلان مرتب کیا گیا۔ ٹاسک فورس میں تجویز پیش کی گئی کہ NIO کے رکن ممالک کو دیگر ملکوں کے بہترین طریقوں کو اپنانا چاہیے۔ اس کے پلاسٹک کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور آگاہی مہم چلانے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ رکن ملکوں نے متعلقہ قانون سازی کے موثر اطلاق، ہلاکتوں میں کمی اور سیٹلائٹ اور Flipper tagging سمیت باہمی تعاون کی تحقیق کے اقدام اور کچھووں کی جینیاتی تحقیق کا عزم ظاہر کیا گیا۔ رکن ملکوں نے مقامی برادریوں کا کچھووں کے تحفظ کی سرگرمیوں میں موثر شرکت یقینی بنانے کیلئے مستقل ذریعہ معاش کے فروغ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔

IOSEA سمندری کچھووں کی مفاہمتی یادداشت کے کوآرڈینیٹر ہیڈرن فرش وکانما نے ممالک کے دستخط کی حامل مفاہمتی یادداشت کے مقصد کو اجاگر کیا جہاں اس کا ہدف سمندری کچھووں اور ان کی رہائش گاہوں کے تحفظ مینجمنٹ کیلئے مل کر کام کرنا ہے۔ انہوں نے بات پر زور دیا کہ MTTF کا اہم کردار علاقائی تعاون کو مضبوط تر کرنا اور رکن ملکوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔ اس طرح کے اجلاسوں سے ایک ملک کو سائنسی ڈیٹا اور تجربات کے تبادلے کا موقع ملتا ہے۔ انہوں نے بحر ہند، جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں سمندری کچھووں کیلئے اہمیت کی حامل نیٹ ورک آف سائٹس پر بھی روشنی ڈالی اور جن جگہوں کی نامزدگی کی جا سکتی ہے ان کے بارے میں سوچنے کیلئے ٹاسک فورس کے قیام کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

اجلاس میں حکومتی نمائندوں میں سے ایک، حکومت پاکستان کی وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ثمر حسین خان پاکستان میں حیاتیات کے تحفظ کے پروگرام میں آگاہی اجاگر کرنا اور برادری کی موثر دلچسپی اہم اجزا میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف قوانین کے تحت کچھووں کی برآمدات اور مقامی سطح پر گھریلو کھپت کی سختی سے ممانعت ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے اہم افزائش کی سائٹس کو Rasmar sites قرار دیا ہے جس میں جزیرہ استولا اور جیوانی کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔

اس موقع پر WWF پاکستان کے منیجر میرین پروگرام عمیر شاہد، سری لنکا میں محکمہ برائے تحفظ جنگلی حیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر میرین چنا وراویرا، مالدیپ کے ڈائریکٹر جنرل ابراہیم نعیم، امریکا کے میرین ٹرٹل ایکولوجی کے ریسرچ سائنسدان اور تشخیصی پروگرام ڈاکٹر منوج تیواڑی، دکشن فاو¿نڈیشن انڈیا کے فیلڈ ڈائریکٹر مرلی دھرن، سری لنکا کی بائیو کنزرویشن سوسائٹی کے چیئرمین ڈاکٹر للت ایکانائیکے، تحقیق دان روزالنڈ میری کرنن باو¿ن اور بھارت کی FLAME یونیورسٹی کے مطالعہ ماحولیات کی پروفیسر ڈاکٹر اینڈریا فلٹ نے بھی گفتگو کی۔