لاپتا شخص کو پھانسی کی سزا کی اطلاع 6 سال بعد دی گئی

224

کراچی ( رپورٹ: خالد مخدومی) گزشتہ2 ماہ کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے19 افراد کی اپنی تحویل میں ہونے کا اعتراف کر لیا۔2012ء سے لاپتاشخص کے بارے6 سال بعد بتایا گیا کہ اس کو فوجی عدالت پھانسی پر چڑھاچکی ہے، جسارت میں خبروں کی مستقل اشاعت کے بعد فاٹا میں قائم حراستی مراکز میں قید افراد کی اہل خانہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، لاہو ر کے پروفیسر عطا اور ٖڈاکٹر جاوید سمیت46 افراد گھروں کو
واپس آگئے،4 کا تعلق کراچی سے ہے۔ لاپتا افراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن کی جنوری میں جاری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ لودھراں کی تحصیل کہڑور پکا کے رہائشی محمد عابد کو فوجی عدالت سے سز ائے موت دی جا چکی ہے، محمد عابد دسمبر 2012ء سے لاپتا تھا، اس کے والد محمد رمضان نے دیگر عدالتوں کے علاوہ لاپتا افرادکی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن کو بھی درخواست دی تھی، کمیشن کی دستاویزات جنوری2018ء کے مطابق ملٹری انٹیلی جنس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ عابد کو فوجی عدالت موت کی سزا دے چکی ہے، اسی طرح دسمبر اور جنوری میں لاپتا افراد کے کمیشن کی دستاویز میں انکشاف ہو ا کہ18 افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں جن میں سے18 فاٹا میں قائم حراستی مراکز میں موجود ہیں ان کی برسوں سے وہاں موجودگی کا انکشاف ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو اور پولیس نے کیا، جن میں2016ء سے لاپتا مہمند ایجنسی کا امین جان، 2015ء سے غائب کرم ایجنسی کا ابراہیم گل، 2016ء میں مردان سے لاپتا ہونے والا امیر خان، 2016ء میں اسلام آباد سے لاپتا ہونیوالا اشرف شہزاد، 2016ء میں میانوالی سے لاپتا ہونے والے عمر فاروق اور یونس2015ء میں ایبٹ آباد اور بنوں سے لاپتا ہونے والے نعمت اللہ اور حفیظ اللہ2014ء میں جھنگ سے لاپتا ہونے وال اعبد المقتدر 2013ء میں لکی مروت سے لاپتا فرحت اللہ 2015ء میں نوشہرہ سے لاپتا ہونے والا ریاض2016 میں کورنگی کراچی سے لاپتا ہونے والا محمد طارق، 2016ء میں لکی مروت سے لاپتا ہونے والا اعجاز احمد، 2013ء میں سوات سے لاپتا ہونے والا فضل ربی، 2016ء پشاور سے لاپتا ہونے والا ضیااللہ،2011ء سے پشاو ر ہی سے لاپتا محمد نعیم اور2016ء میں فیصل آباد اورخوشاب سے لاپتا ہونے حبیب الرحمان اور محمد یاسر شامل ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداراوں کی جانب سے ان افراد کو جلد ہی اہل خانہ سے ملوایا جائے، ان ایڈآف سول (ریگولیشن 2011ء) کے تحت فاٹا میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی نگرانی میں قائم حراستی مراکز کے بارے میں جسارت کی خبروں نے اثر دیکھایا اور وہاں قید افرادکی ان کے اہل خانہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس کی سہولت ریگولیشن2011ء میں دی گئی تھی۔ دسمبر اورجنوری میں برسوں لاپتارہنے والے46 افرا د پراسرار طور پر اپنے گھروں کو لوٹ آئے جن میں لاہو ر علامہ اقبال کے رہائشی پروفیسر غالب عطااور ڈیفنس لاہو ر کے رہائشی ڈاکٹر جاوید اقبال شامل ہیں دونوں افراد کو 2015ء میں سادہ لباس افراد نے اغوا کیا تھا، گھروں کو لوٹنے والے سخت خوفزدہ اور اپنی گمشدگی کے بارے میں کسی قسم کی گفتگو کرنے سے انکاری ہیں۔