منصورہ کا میزبان چلا گیا 

420

کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ رکا ہوا تھا ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات روز نئی کروٹیں لے رہے ہیں۔ یکم جنوری کو امریکی صدر کا دھمکی آمیز ٹویٹ جس نے ایک ہلچل مچادی۔ پاکستان کا جرات آمیز ترکی بہ ترکی جواب، پھر اسرائیلی وزیر اعظم کا بھارت کا دورہ، امریکا اسرائیل بھارت کا پاکستان کے خلاف متحدہ محاز اور دیگر موضوعات یقیناً ایسے ہیں جن بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے اسی درمیان میں کچھ اہم شخصیات کے دنیا سے چلے جانے کی خبر یں بھی آتی رہیں لیکن چند روز قبل ایک صبح جب میں نے صفدر چودھری صاحب کے انتقال کی خبر دیکھی تو دل میں اداسی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اپنی دلآویز مسکراہٹ اور پرجوش معانقے سے منصورہ آنے والوں بالخصوص لاہور کے باہر سے آنے والوں کا پرخلوص استقبال کرنا سفر کی ساری تھکن کو دور کردیتا اسی لیے جب میں نے صفدر چودھری صاحب کے رحلت کی خبر پڑھی تو دل سے بے اختیار نکلا کہ آج منصورہ کا میرا میزبان دنیا سے چلا گیا، اب میں منصورہ جاکر کس کو فون کروں گا۔ جسارت کے بزنس مینیجر لاہور ٹور پر جارہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا منصورہ بھی جائیں گے، انہوں نے کہا ویسے تو پروگرام نہیں ہے لیکن وہاں بس صرف ایک آدمی ہے جس سے ملنے کو دل چاہتا ہے اور اسی کے لیے جاؤ ں گا اور وہ ہے صفدر چودھری۔
1980 اور 90 کی دہائی میں جب میں جسارت میں تھا اس وقت صفدر چودھری صاحب سے ملاقاتوں کا آغاز ہوا وہ جب بھی کراچی آتے جسارت ضرور آتے اور تقریباً سب لوگوں سے ملاقاتیں کرتے وہیں ان سے میری بھی گپ شپ رہتی میں بھی جب کسی پروگرام کے حوالے سے منصورہ جاتا تو ان سے ضرور ملاقات کرتا۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے کسی ذاتی کام سے بھی لاہور جانا ہوا تو صفدر بھائی سے ٹیلی فون پر ضرور بات ہوئی چند سال قبل میں ایک ذاتی کام سے اپنی فیملی کے ساتھ دو تین روز کے لیے لاہور گیا اور ایک ہوٹل میں قیام رہا تو وہاں سے میں نے چودھری صاحب کو فون کیا تو ان کی کچھ طبیعت خراب تھی لیکن بڑی محبت سے گفتگو کی اور ہوٹل کا پتا وغیرہ پوچھا معلوم کیا کہ کب تک قیام ہے ان کا شاید آنے کا ارادہ تھا مگر خرابی طبیعت کی وجہ سے نہ آسکے۔
صفدر چودھری صاحب جماعت اسلامی کے شعبہ نشر اشاعت کی بنیادوں کو مضبوط بنانے والوں میں سے ہیں انہوں نے مولانا مودودی کے ساتھ طویل عرصے کام کیا پھر میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسین صاحب کے ساتھ بھی کام کیا۔ میڈیا کے حوالے سے منصورہ میں اکثر تربیتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا تو اس میں چودھری صاحب کی بھی ایک تربیتی تقریر ضرور ہوتی ان کی تقریروں سے میں نے یہ انداز ہ ہ لگایا کہ میڈیا کے حوالے سے ان کی سوچ میں بڑی گہرائی اور وسعت پائی جاتی ہے پورے ملک سے آئے ہوئے جماعت کی تنظیم کی مختلف سطحوں کے ناظمین نشر واشاعت کو انہوں نے بڑی کام کی باتیں بتائیں جو نکات اب تک کچھ یاد ہیں ان میں انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں کام کرنے والوں کو اپنے رابطہ و تعلقات کو وسیع کرنا چاہیے، آپ جب کسی اخبار یا ٹی وی چینل کے دفتر جائیں تو وہاں ہر فرد سے آپ کے تعلقات ذاتی نوعیت کے ہونے چاہئیں اور اس میں ہنسی مذاق کے ساتھ بے تکلفانہ انداز ہونا چاہیے، یہ نہ ہو کہ جس فرد سے آپ کو کوئی کام ہو اسی ملے اور چلے آئے کبھی مصروفیت میں ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن عمومی طرز عمل یہی ہونا چاہیے کہ ہم اس میں زیادہ سے زیادہ وقت لگائیں اسی طرح آپ جب کسی سے فون پر بات کریں تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ سلام دعا کے بعد آپ کی طرف سے کوئی ایسی بات ضرور ہو جس سے سامنے والا کھلکھلا پڑے اس لیے کہ آپ کو یہ تو معلوم نہیں ہے کہ جس فرد کو آپ فون کررہے وہ کس ذہنی دباؤ میں بیٹھا ہے آپ کا یہ انداز گفتگو اس کے موڈکو ہلکا کردے گا اور وہ پھر آپ کی بات توجہ سے سنے گا۔ اسی طرح کے کئی نکات انہوں نے بتائے۔
اس شعبے کا آپ کوئی بھی نام دیں لیں اسے میڈیا مینجمنٹ کہیں، شعبہ اطلاعات و نشریات کہیں، پبلک ریلیشننگ یا جدید نام انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کہیں یہ دراصل ایک فن ہے اور اس کے لیے کچھ لوگوں میں قدرتی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو پھر اجتماعیت کی تربیت سے پروان چڑھتی ہیں۔ صفدر چودھری میں اس شعبے کے حوالے سے قدرتی صلاحیتیں پہلے سے موجود تھیں اور پھر مولانا مودودی کی براہ راست نگرانی و تربیت نے اس میں چار چاند لگا دیے۔ ان کو دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ اللہ میاں نے ان کو اسی کام کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے وہ کوئی اور کام ٹھیک سے نہ کر سکے۔ تحریکوں میں اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو تحریک میں جذب ہوجاتے ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے اندر تحریک جذب ہو جاتی ہے ان کی چال ڈھال، اندز گفتگو، میل جول یعنی ان کی پوری باڈی لنگویج تحریک کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کو کسی خاص شعبے کی ذمے داری دی جاتی ہے، وہ اس کے اندرگم ہوجاتے ہیں یا جذب ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی بعض لوگوں میں وہ شعبہ ہی جذب ہو جاتا ہے۔ صفدر چودھری صاحب کا مسکراتا اور شرماتا چہرہ، ہونٹوں پر مستقل ڈیرہ جمائے دلآویز مسکراہٹ، کسی کے اسقبال کے موقع پر وہی مسکراہٹ ہلکی سی ہنسی میں بدل جاتی پھر خود ہی کوئی اچھا سا جملہ کہہ کر ہلکا سا قہقہا لگا کر بانہوں کو پھیلا کر پر جوش معانقہ کر کے جس طرح وہ اپنے ملنے والے مہمان کو اپنے اس روایتی اخلاق سے اپنا مستقل گرویدہ بنالیتے یہ ان ہی کا خاصہ تھا اور اسی سے معلوم ہوتا تھا یہ پورا شعبہ ان کے رگ رگ میں سرایت کرگیا ہے۔ ایک دفعہ میں منصورہ گیا مسجد کے پاس ہی صفدر بھائی سے ملاقات ہو گئی، سلام دعا کے بعد میں نے کہا کہ منور صاحب سے ملنا ہے انہوں میرا ہاتھ اپنے ہاتھ لیتے ہوئے کہا چلیے چلتے ہیں اور اس مختصر راستے میں حال چال خیریت خیر سلا معلوم کرتے ہوئے منور صاحب کے کمرے میں داخل ہو کر کہا لیجیے ہم کراچی سے آئے ہوئے آپ کے مہمان کو آپ کے پاس لے آئے وہ یہ بھی کرسکتے تھے مجھ سے کہہ سکتے تھے آپ ایسے ایسے جائیں فلاں کمرے میں منور صاحب ہوں گے اور رخصتی مصافحہ کر کے وہ اپنی راہ لیتے اور ہم اپنی، لیکن اس طرح ان کا تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ساتھ چلنا ایک طرح سے میری حوصلہ افزائی تھی۔
باقی صفحہ9پر
جاوید احمد خان
اخبارات کی دنیا میں ان کا ایڈیٹر، مالکان، سے لے کر ایک چپراسی تک سے بے تکلفی اور ہنسی مذاق والا تعلق و رابطہ تھا ایک دفعہ وہ جب جسارت میں آئے تو حسب معمول جنگ کے دفتر بھی گئے، واپسی پر مجھے بتایا کہ میں میر خلیل الرحمن کے کمرے میں ان سے بات کرنے کے لیے بیٹھا تھا اس وقت میر صاحب مختلف خواتین کی فوٹو جنگ کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی اور کراچی کی ٹرے میں تقسیم کررہے تھے میں نے کہا اگر پاکستان میں دس منٹ کے لیے فحاشی رک جائے گی کوئی طوفان نہیں آجائے گا، میر صاحب نے مسکراتے ہوئے ہاتھ روک دیا اور کہا شرارتیں نہ کر چل باتیں کرتے ہیں۔ روزنامہ جنگ میں بھی وہ وہاں موجود اسٹاف کے ہر فرد سے رابطہ کر کے آتے تھے۔
مجھے یاد نہیں کے کتنے برس قبل ان سے میری آخری دفعہ ملاقات یا گفتگو ہوئی تھی لیکن جو کچھ بھی جتنی دیر بھی بات ہوئی مجھے وہ کچھ شاکی شاکی سے لگ رہے ہیں۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے باصلاحیت لوگوں کی ان معنوں قدر نہیں کرپاتے کے انہوں نے اپنی پوری زندگی جس مشن میں صرف کرڈالی تو ان کے مشاہدات، تجربات، واقعات کو کوئی کہیں قلم بند کرلے اس کو جمع کر کتابی شکل میں لایا جائے۔ ایک دفعہ ہم اپنے ایک بزرگ تحریکی ساتھی طیب صاحب کے ساتھ محمود اعظم فاروقی کی عیادت کو گئے، میں نے فاروقی صاحب سے کہ آپ نے بھر پور تحریکی اور سیاسی زندگی گزاری ہے تنظیم میں آپ ناظم حلقہ سے لے کر امیر کراچی تک رہے۔ سماجی زندگی میں کونسلر سے لے کر قومی اسمبلی کے رکن تک رہے اور وفاقی وزیر بھی رہے اس حوالے سے آپ اپنے مشاہدات، تجربات اور واقعات کو قلم بند کر لیں تو اس سے کارکنوں کو رہنمائی مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھا کوشش کرتے ہیں اس بات کا ذکر انہوں نے ادراہ نور حق میں مرحوم عبدالرشید صاحب سے بھی کیا، چھ سات ماہ کے بعد دوبارہ ان سے ملنے گئے اور میں نے اپنی تجویز کے حوالے سے پوچھا کہ کیا اس میں کچھ پیش رفت ہوئی انہوں جواب دیا کہ ہاں میں نے کچھ کوشش کی تھی لیکن پھر اپنے ہی قلم سے اپنی باتیں لکھنا مجھے کچھ مناسب نہ لگا کہ آخری وقت ہے کوئی ذرا سی لغزش عمر بھر کی نیکیوں کو نقصان نہ پہنچا دے اس لیے میں نے اس کو چھوڑ دیا ہاں اگر کوئی دوسرا لکھے تو لکھ سکتا ہے مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ ہمارے اکابرین کا یہی انجانہ خوف ہے جو انہیں اس کام سے روکتا ہے، یہی مسئلہ صفدر چودھری صاحب کے ساتھ بھی رہا ہوگا۔ حافظ ادریس صاحب نے اس موضوع پر کام کرنے کے کچھ اشارے دیے ہیں یہ ایک اچھی کاوش ہوگی۔