لاؤڈ اسپیکر ایکٹ صرف مساجد کے لیے؟؟

172

ایک خبر جسارت ہی میں شایع ہوئی ہے کہ جرمنی میں حکومت نے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان پر پابندی لگادی ہے۔ یہ پابندی عدالت کے ذریعے لگوائی گئی ہے۔ یہ پابندی جرمنی میں لگی ہے اور وہاں کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ مسجد سے 600 میٹر دور رہنے والے جوڑے نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کو مسیحی عقائد کے منافی قرار دیا تھا۔ اس سے قبل اسرائیل میں بھی اذان پر پابندی لگائی گئی۔ دنیا کے کئی مغربی مالک میں ایسا ہورہاہے لیکن افسوسناک امر تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے نام سے ایک قانون مسلط ہے جس کو 100 فی صد صرف مساجد ، دینی تقریبات، مذہبی اجتماعات وغیرہ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص کہیں بھی رہتا ہو بس ایک ٹیلی فون کرکے مقامی تھانے کو اطلاع دے دے کہ فلاں مسجد سے کچھ لوگ اشتعال انگیزی کررہے ہیں۔ اسلامی ملک کی پولیس فوراً حرکت میں آتی ہے اور لاؤڈ اسپیکر بند کرواکر حسب استطاعت کچھ لوگوں کو حراست میں بھی لے لیتی ہے۔ کبھی کبھار یہ شکایات جائز بھی ہوتی ہیں۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کو پڑوسیوں کو تکلیف دینے کے لیے اور دوسرے مسلک کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے لیکن گزشتہ ماہ جنوری کے آخری عشرے میں کراچی کے درجنوں اسکولوں میں جو رہائشی علاقوں کے درمیان واقع ہیں ہفتہ طلبہ کے نام پر تقریبات میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے موسیقی کی بے ہنگم محفلیں منعقد کی گئیں۔ لوگ ان کی موسیقی سننا چاہیں یا نہ چاہیں یہ اسکول اپنے کام میں مصروف رہے۔ اے ای ایس اسکول گلستان جوہر بلاک 15 میں تو ایسا گمان ہوا کہ یہ کوئی ڈانس کلب یا میوزیکل کالج ہے۔ دس روز سے زیادہ یہ موسیقی کی محفلیں جمی رہیں اور ہندوستانی فلموں کے گانے بھی بھرپور انداز میں اہل محلہ کو زبردستی سنوائے گئے۔ سوال یہ ہے کہ لاؤڈ اسیکر ایکٹ صرف مساجد اور دینی تقریبات پر کیوں موثر ہوتا ہے۔ موسیقی کی محفلوں اور بے ہنگم شور شرابے کو اس سے مستثنا کیوں رکھا جاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ حکمران اور بیورو کریسی موسیقی کے دلدادہ لوگوں پر مشتمل ہیں۔ محکمہ تعلیم بھی پھر کیا ایکشن لے گا جب اوپر سے ہی سب تعلیمی اداروں میں موسیقی چاہتے ہوں۔