یوم یکجہتی کشمیر اور سوات میں دھماکا

437

پاکستان کے دشمنوں نے یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری سے دو روز قبل سوات میں فوجی یونٹ کے اسپورٹس کمپلیکس میں حملہ کرکے کپتان سمیت 11 اہلکاروں کو شہید کردیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق حملہ خودکش تھا، یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک حملہ افغانستان میں ہوتا ہے اور دو ایک روز میں ایک حملہ پاکستان میں۔ پھر پاکستان افغانستان ایک دوسرے پر مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کسی زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چل رہا تھا۔ ایک دن کراچی، لاہور یا کسی اور شہر میں دھماکا ہوتا تھا اس کے چند روز بعد بھارت کے شہروں دہلی، ممبئی یا کلکتہ وغیرہ میں دھماکا ہوجاتا تھا پھر دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزامات لگاتے تھے۔ عرصے تک یہی صورتحال رہی یہاں تک کہ افغانستان کا محاذ گرم ہوگیا اس دوران پاکستان کی مضبوط پوزیشن کے سبب بھارت کچھ عرصے محتاط رہا لیکن سوویت یونین کے افغانستان سے نکلنے کے بعد حالات پلٹ گئے اور امریکا اس کی جگہ افغانستان میں گھس آیا۔ اس صورتحال کا بھارت نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے خلاف افغانستان کو اپنا مرکز بنالیا۔ اب یہ ہورہاہے کہ بھارتی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں کارروائی کرتے ہیں چونکہ کارروائی کا مرکز افغانستان ہے اس لیے پاکستان افغانستان سے بجا طور پر احتجاج کرتا ہے کیونکہ دہشت گردوں کو مدد اور بنیادی سہولیات وہیں سے ملتی ہیں۔ ایک تسلسل ہے بیانات، الزامات اور دعوؤں کا ،اس کے نتیجے میں پاکستانی عوام اور جوان شہادت کے منصب پر فائز ہوتے آرہے ہیں۔ سارا نقصان پاکستان کا ہورہاہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں جو جنرل پرویز نے اختیار کی تھی امریکی جنگ اپنے سر اوڑھ لی تھی آج بھی جب تک امریکا کی جنگ سے پاکستان باہر نہیں نکلے گا اس طرح کے حملے ہوتے رہیں گے۔ اور اب تو اس جنگ سے نکلنے کے بھی مزید خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ تازہ حملے کی ذمے داری روایتی طور پر طالبان نے قبول کرلی ہے۔ جب بھی پاکستان میں کوئی ایسا حملہ ہوتا ہے تو طالبان ضرور ذمے داری قبول کرتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی گروپ سامنے آجاتا ہے لیکن جب افغانستان میں ایسا ہوتا ہے تو بوجوہ فوری طور پر کوئی گروپ سامنے نہیں آتا بلکہ افغان حکومت کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ رٹی رٹائی تقریر جھاڑ دے۔ حقانی نیٹ ورک کا رونا روئے پاکستان سے مطالبہ کرے کہ اس دہشت گردی کے واقعے کے ذمے داروں کو گرفتار کرکے سزا دے اور ہماری طرف سے جواباً جو کچھ کہا گیا وہ افغانستان کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر دہشت گردی کے خاتمے کی پیشکش ہے۔ اور افغانستان کو یہ قبول نہیں۔ پاکستان یہی پیشکش امریکا کو بھی کرچکا ہے۔ لیکن وہ بھی اس پر راضی نہیں۔ ایک اور تکلیف دہ بات پاکستانی قوم کے لیے یہ ہے کہ ہر ہفتے دفتر خارجہ کی بریفنگ کی طرح ہفتے دو ہفتے بعد یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستانی فورسز نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اب اگر کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو آنکھ نکال دی جائے گی، منہ توڑ دیا جائے گا۔ لیکن جوں ہی یہ بیان دیا جاتا ہے کوئی عوامی مقام یا کوئی فوجی یا سیکورٹی نوعیت کی جگہ نشانہ بنادی جاتی ہے اور پھر چھوڑیں گے نہیں والا بیان۔ یہ تماشا زیادہ تکلیف دہ ہے۔ جن 11جوانوں کی شہادت ہوئی ہے ان کے اہلخانہ بھی افسوس کررہے ہوں گے کہ سرحد پر دشمن کو مارتے ہوئے اس سے لڑتے ہوئے شہادت ملی ہوتی تو مزا بھی آتا۔ یہ کیا کہ دشمن ہمارے کھیل کے میدانوں میں بھی منہ مارتا پھر رہا ہے یہ بات تو ہمارے حکمران اور سیکورٹی حکام بھی جانتے ہیں کہ بھارت اور امریکا عیار اور بزدل ہیں۔ یہ سامنے سے وار نہیں کرتے۔ ان کا جاسوس نیٹ ورک پکڑ پکڑ کر ہم خود چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی سازشوں کو سامنے لاتے ہیں لیکن عالمی برادری کو نہیں دکھاتے جس کے نتیجے میں اب دوسرے مغربی ممالک بھی بھارت کے مطالبات کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ بھارت ایک مفروضہ الزام لگاتا ہے اور پھر امریکا اس کی بنیاد پر پاکستان پر دباؤ ڈالنے لگتا ہے۔ امداد بند کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے اور ہمارے حکمران دباؤ میں آجاتے ہیں۔ اب تک ہماری وزارت خارجہ کشمیر کا مقدمہ ڈھنگ سے نہیں لڑسکی ہے اور تازہ دھماکا ایسے وقت پر کیا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان سے الجھ جائے جب کہ پوری قوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے یکسو ہے۔ پاکستان گزشتہ تقریباً 29 برس سے مسلسل 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتا ہے۔ اس کا آغاز سابق امیر جماعت اسلامی پاکستانی قاضی حسین احمد نے کیا تھا جس کے نتیجے میں ہمارے حکمرانوں کو 5 فروری کو عام تعطیل کرنا پڑی اور یہ عام تعطیل اب بھی جاری ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ حکمران اسے محض عام تعطیل بناکر گزارنے کے ماہر ہوگئے ہیں۔ قوم میں البتہ جذبہ ہے جماعت اسلامی بھی بھرپور طریقے سے یوم یکجہتی مناتی ہے۔ 1990ء میں تو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی گئی تھی اور واہگہ سے مظفر آباد تک انسانی زنجیر بناکر تاریخی یکجہتی کا اظہار کیا گیا تھا۔ حکومتوں کا کام جلسے جلوس یا تقریریں نہیں ہوتا۔ اس پورے عرصے میں پاکستان کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی نہیں دکھائی بھارت نے مزید فوج کشمیر میں اتاردی ہے ہمارے حکمران خاموش رہے۔ مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل اور بھارت کے دفاعی تعاون اور مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے اتحاد پر بھی ہمارے حکمران خاموش بیٹھے رہے۔ نتیجہ یہ ہورہاہے کہ بھارتی حکمران کشمیر میں درندگی کے وہ تاریخ بنارہے ہیں جو بسا اوقات اسرائیل میں بھی نہیں آزمائی گئی۔ پیلٹ گنوں کا استعمال، چھوٹی چھوٹی آبادیوں کا محاصرہ، خواتین کی عصمت کی پامالی، نوجوانوں کا قتل روز کا معمول ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی آواز تو اٹھاکر آگئے لیکن اصل چیز تو حکومتی اقدامات ہیں جو کسی دور میں بھرپور طور پر نہیں کیے گئے۔ کشمیر پر ظلم تو یہ ہے کہ اس کے لیے جہاد نیم دلی سے، اس کے لیے کمیٹی نیم دلی سے، اس کے لیے سفارتی اقدامات نیم دلی سے۔ فوجی آپریشن نیم دلی سے۔ میڈیا پر نیم دلی سے مہم، کوئی کام تو حکمران دل سے کرلیں۔ پھر کشمیر کی آزادی کوئی مشکل نہیں ہوگی۔