کراچی (اسٹا ف رپورٹر) بہادر آباد میں رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فیصل سبزواری نے کہا کہ کل سے ایک افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی ہے جس کا رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بغور جائزہ لیا گیا۔
فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ 23 اگست 2016ء کے بعد سے ہماری جماعت سیاسی انتہاء پسندی کی قائل نہیں، عدم تصادم اور عدم تشدد کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اندرونی معاملات کو مل بیٹھ کر حل کیا جائے اور اس وقت بھی یہی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان عبد الرؤف صدیقی، سید سردار احمد اور جاوید حنیف کو فاروق ستار کے پاس بھیجا ہے، تینوں ذمہ داران فاروق ستار کی رہائشگاہ پر چلے گئے ہیں، رابطہ کمیٹی نے سید سردار احمد، جاوید حنیف اور عبد الرؤف صدیقی کو مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ فاروق ستار سے مل کر کسی متفقہ حل پر پہنچیں۔
فیصل سبزواری نے مزید کہا کہ مجھ سمیت کسی بھی رکن کو ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے، سینیٹ انتخابات کیلئے ہماری تمام تیاری مکمل ہے، ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے، پہلے بھی کڑوے گھونٹ پیئے، آئندہ بھی پینے کے لئے تیار ہیں، مائنس نہیں پلس کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
ادھر، فاروق ستار کے دھڑے سے تعلق رکھنے والے علی رضا عابدی نے کہا ہے کہ بہادر آباد میں موجود رابطہ کمیٹی کو فاروق ستار نے معطل کیا ہوا ہے، معطل شدہ رابطہ کمیٹی نہ کوئی اجلاس کر سکتی ہے، نہ میڈیا سے گفتگو اور نہ ہی کوئی کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے۔ علی رضا عابدی نے مزید کہا کہ معطل شدہ رابطہ کمیٹی کا ہر اقدام غیرقانونی ہے۔
ذرائع کے مطابق، بہادر آباد سے پی آئی بی کالونی جانے والا وفد 3 تجاویز لیکر پہنچا ہے۔ پہلی یہ کہ فاروق ستار آج کا ورکرز کنونشن منسوخ کریں۔ دوسری یہ کہ جو بھی تحفظات ہیں، فاروق ستار یہاں ہی حل کریں اور تیسری یہ کہ کامران ٹیسوری کے معاملے پر بہادر آباد رابطہ کمیٹی نظرثانی کرنے کو تیار ہے لہٰذا پارٹی کو مزید انتشار سے بچانے کیلئے فاروق ستار بہادر آباد میں اجلاس کریں۔
ادھر، بہادر آباد میں ایم کیو ایم کے عارضی مرکز پر کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے پولیس کی نفری اور واٹر کینن بھی پہنچا دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ کامران ٹیسوری ایک بار پھر ایم کیو ایم پاکستان میں تنازع کی وجہ بن گئے ہیں۔ سینیٹ الیکشن کیلئے ٹکٹ نہ دینے پر فاروق ستار اور عامر خان کے گروہوں میں جھگڑا ہوا ہے۔ دونوں دھڑوں کے الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے۔ متحدہ سربراہ فاروق ستار نے ڈپٹی کنوینر عامر خان پر پارٹی پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ذرائع کے مطابق، سینیٹ الیکشن کیلئے امیدواروں کا چناؤ ایم کیو ایم پاکستان کو تقسیم کر گیا ہے۔ رابطہ کمیٹی نے فروغ نسیم، امین الحق، شبیر قائم خانی اور نسرین جلیل کو ٹکٹ دینے کی منظوری دی۔ نام نکالنے پر کامران ٹیسوری نے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ فاروق ستار نے بھی کامران ٹیسوری کی حمایت کی جس پر متحدہ سربراہ اور عامر خان گروپ میں جھگڑا ہوا اور رابطہ کمیٹی کے ارکان اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ عامر خان گروپ کے ارکان نے جھگڑے کے بعد بہادر آباد میں اپنا اجلاس کیا جبکہ فاروق ستار کے حامی پی آئی بی مرکز جمع ہو گئے جہاں کارکنوں نے متحدہ سربراہ کے حق میں نعرے لگائے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عامر خان پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے میں خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جمیل بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ مارچ 2015 سے مشکلات کا شکار ہے، پہلے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا، جہاں سے نیٹو کا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا، بعد ازاں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نبیل گبول نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا اور پارٹی پر کئی الزامات لگائے۔
اسی سال قائد ایم کیو ایم الطاف حسین نے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی صوبے کے طویل ترین گورنر رہنے والے عشرت العباد کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا، ستمبر 2015 میں پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر کو عدالتی حکم پر نشر کرنے پر پابندی لگ گئی، دسمبر 2015 میں الطاف حسین کے خلاف لندن میں قتل ہونے والے عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج ہوا۔
مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کو سب سے بڑا دھچکا لگا، جب ایم کیو ایم کے کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے الگ جماعت پاک سرزمین پارٹی بنائی، جس میں ایم کیو ایم کے کئی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہوئے۔
اگست 2016 میں پارٹی کے بانی الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے، جس کے بعد ایم کیو ایم نے الطاف حسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا جبکہ فاروق ستار نے متحدہ کی قیادت سنبھال لی۔
اگست 2017 میں ایم کیو ایم نے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کیا، جس میں صرف پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے شرکت کی یقین دہانی کروائی، باقی کسی جماعت نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، جس پر یہ کانفرنس منسوخ کر دی تھی۔
نومبر 2017 میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں اتحاد کے حوالے سے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی طویل پریس کانفرنس ہوئی تاہم اس کے اگلے روز ہی اس کے خلاف باتیں سامنے آئیں حتیٰ کہ فاروق ستار نے بعد میں پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا، تاہم اسی دن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے انہیں منا لیا تھا جبکہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا۔
ایم کیو ایم (مہاجر قومی موومنٹ) کی بنیاد 1984ء میں کراچی میں پڑی۔ سال 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن کے نتیجے میں ایم کیو ایم حقیقی سامنے آئی۔سال1997ء میں ایم کیو ایم کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ کر دیا گیا۔
سال 2016ء میں ایم کیو ایم سے لاتعلقی اختیار کرنے والے سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال نے پاک سرزمین پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔
تئیس اگست 2016ء کو رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر فاروق ستار نے بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی کا اظہار کرکے ایم کیو ایم پاکستان نامی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا۔
نو نومبر 2017ء کو ایم کیو ایم پاکستان کے عامرخان گروپ نے ڈاکٹرفاروق ستارکے خلاف بغاوت کی کوشش کی جس پر قابو پا لیا گیا۔
اب سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک بات فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی میں اختلافات سامنے آئے ہیں۔