خواب ہوئے غرقاب

363

تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر اٹلی لے جانے والی ایک اور کشتی لیبیا کے سمندروں میں غرقاب ہوگئی۔ کشتی میں نوے افراد سوار تھے جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارے برائے مہاجرین کے مطابق اب تک سولہ پاکستانی ہلاک شدگان کی شناخت ہو چکی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق رواں سال ایک مہینے میں 6600 افراد غیر قانونی طور پر یورپ کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر یورپ منتقل ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سی پیک کی صورت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی سرگرمی کا آغاز ہو چکا ہے جس کی مخالفت تو موجود ہے مگر اس کے گیم چینجر ہونے میں دورائے نہیں، بڑی تعداد میں نوجوانوں کا جان جوکھم میں ڈال کر نکلنے کی کوشش کرنا لمحۂ فکر ہے۔ جہاں اہل اور نااہل ہوجانے والے حکمران بڑے بڑے منصوبوں کی مالا جپتے ہیں، سڑکوں، پلوں، میٹرو سروس سمیت بڑے منصوبوں کا فخریہ انداز سے ذکر کرنا نہیں بھولتے درو دیوار سے مایوسی کا یوں ٹپکنا باعث حیرت ہے۔ اُپلے تھاپنے اور بھٹوں پر ہاتھ زخمی کرنے والی ماؤں کے جگر گوشوں کو لیے یورپی ملکوں کا رخ کرنے والوں کی کشتیوں کا غرقاب ہونا اب ایک معمول ہے۔ ہر سال کوئی نہ کوئی حادثہ دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا تارکین وطن سے متعلق شعبہ اس حادثے پر تشویش کا اظہار کرتا ہے اور اس کے بعد ایک اور حادثے تک ماحول اور منظر پر خاموشی چھا جاتی ہے۔
کچھ لوگ پانیوں کی نذر ہو کر مچھلیوں اور مگر مچھوں کے پیٹ کا ایندھن بنتے ہیں۔ کچھ لوگ کسی ملک کے سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر چیل کوؤں کے پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان بن جاتے ہیں۔ طبقاتی تفریق کا شکار اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی قباحتوں کی زد میں آئے ہوئے معاشروں میں خاک نشینوں کا مقدر یونہی تاریک راہوں میں مارے جانے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنے روز وشب کو بدلنے اور اپنے اہل خانہ کو خوش حال زندگی دینے کی تلاش میں جائز وناجائز سے بے نیاز اور قانونی و غیر قانونی کے تصورات سے عاری ہو کر خطرات کی دلدل میں پہلا قدم رکھتے ہیں اور پھر ایک روز کسی حادثے کا شکار ہو کر ایک دن کے لیے اخبار کی سرخی بن جاتے ہیں۔ ان میں کئی ایک اس لحاظ سے خوش قسمت ٹھیرتے ہیں کہ ان کی لاشوں کو ملک کا سفارت خانہ اوونر شپ دے کر وطن واپس لاتا ہے اکثر تو ’’نہ کہیں جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‘‘ کے انجام سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
غربت، بے روزگاری، جنگیں، غیر منصفانہ سماجی اور مذہبی رویے انسانوں کی نقل مکانی کی چند اہم وجوہ میں شامل ہیں۔ غیر قانونی طور پر خوش حال ملکوں کا سفر اختیار کرنے کا رجحان بھی دنیا بھر میں کہیں کم تو کہیں زیادہ موجود ہے مگر پاکستان میں یہ رجحان زوروں پر ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقات کی معاشی پالیسیوں کے باعث روزگار کے مواقع ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ ہوتے تھا کہ ملک میں معاشی صورت حال کی بنیاد پر عوام کے تین طبقات امیر، غریب اور متوسط موجود ہوتے تھے۔ غریب تھوڑی سی محنت کرکے متوسط کلاس کا حصہ بنتا تھا۔ حکمران طبقات کی معاشی پالیسیوں کے باعث متوسط طبقہ یعنی مڈل کلاس ختم ہو کر رہ گئی ہے اب غریب کے لیے ایک جست لگا کر امیر طبقے میں شامل ہونا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ سفارش، اقربا پروری، کرپشن، اداروں میں سیاسی مداخلت کی لعنت نے میرٹ کا جنازہ نکال دیا ہے جس نے نوجوان طبقے کو حالات اور مستقبل سے مزید مایوس کردیا ہے۔ دہشت گردی کی لہر اور صنعتوں اور سیاحت کے زوال نے بے روزگاری میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان حالات کی قید سے آزاد ہونے کے لیے لوگوں میں بیرونی ملکوں کی طرف نقل مکانی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ عوام کی اس طلب اور تڑپ کو دیکھتے ہوئے انسانی اسمگلروں کی ایک صنعت وجود میں آگئی ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی نیٹ ورک ہے جس کے کارندے ملک کے ہر صوبے اور شہر میں موجود ہیں جو لوگوں کو یورپ کی پر آسائش سوسائٹی میں لے جانے کا جھوٹا خواب دکھاتے ہیں۔ اس منزل تک پہنچنے میں کتنی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں؟ لوگ یہ جانتے بوجھتے ہوئے قرض لے کر یا جمع پونجی لگا کر موت کا سفر اختیار کر تے ہیں۔ جب سے غیر قانونی طور پر یورپ منتقل ہونے کی کوشش کرنے والوں کے بدترین حادثات کے شکار ہونے کے واقعات عام ہوئے ہیں تو اقوام متحدہ کا تارکین وطن سے متعلق ادارہ اور خود پاکستان کا میڈیا اور حکومت بھی آگہی کی مہم چلارہا ہے لیکن حالات کا جبر لوگوں کو خطرات سے بے نیاز کرکے خودکشی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خوش حالی کے انتظار میں بیٹھے اہل خانہ مزید بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ملک کے قصبات اور شہروں میں عوام بالخصوص نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے خود کشی کے اس نئے انداز کے خلاف زور دار مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلروں کے روپ میں موجود بھیڑیوں کو تلاش کرکے حوالۂ قانون کرنے کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سفاک لوگ چند پیسوں کی خاطر اور غریب نوجوانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا کر انہیں موت کے کنویں میں دھکیل کر بری الذمہ ہوتے ہیں۔ حکومت کو اس غیر قانونی نیٹ ورک کے معاملے میں زیرو ٹالرنس کا رویہ اپنانا چاہیے تاکہ غریب گھروں کے چراغ یوں سمندر کی بے رحم موجوں یا بے آب وگیاہ سرحدوں پر یوں بجھنے نہ پائیں۔