نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل اور راؤ انوار کے فرار کے ہنگامے پر مجھے ساٹھ سال پہلے کا اسی نوعیت کا واقعہ یاد آ گیا جس کی وجہ سے اُس زمانے کے وزیر اعظم آئی آئی چندریگر کو اپنا عہدہ کھونا پڑا۔
یہ اکتوبر 1957 کے آخری دنوں کا واقعہ ہے۔ میں ان دنوں روزنامہ امروز کراچی کا رپورٹر تھا۔ وہ زمانہ عجیب و غریب تھا، اخبار میں ایک ہی رپورٹر ہوتا تھا جسے شہر میں جرائم، مقامی عدالتوں، چیف کورٹ، کارپوریشن، حکومت سندھ اور وفاقی وزارتوں اور قومی اسمبلی تک ساری BEATS کو کوور کرنا پڑتا تھا۔
شہر میں جرائم کی خبروں کی رپورٹنگ کے لیے یہ سہولت دی گئی تھی کہ شہر کے تمام تھانوں میں درج شدہ رپورٹس پولیس ہیڈ کواٹرز میں تیسری منزل پر ایک کونے میں رکھی جاتی تھیں تاکہ رپورٹرز انہیں پڑھ کر متعلقہ تھانے سے اس کی تفصیل معلوم کر سکیں۔
اتوار کا دن تھا میں اور گجراتی کے اخبار ملت کے رپورٹر علیم علی، شہر کے تھانوں کی رپورٹس پڑھنے پولیس ہیڈ کوارٹرز پہنچے۔ جب ہم تیسری منزل جانے کے لیے سیڑھیوں کی جانب بڑھے تو ڈی ایس پی اقبال شاہ کا ملازم بھاگا بھاگا آیا اور ہم سے کہا کہ بہت سنگین حادثہ ہوگیا ہے، آئی جی پولیس اور دوسرے افسر آرہے ہیں۔ آپ لوگ ابھی چلے جائیں بعد میں آئیے گا۔
مہینے کے آخر ی دن تھے، تنخواہ ختم ہو چکی تھی، جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ہیڈ کوارٹرز کے بغل میں ایرانی ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی لیتے۔ ہم دونوں نے سوچا کہ معاملہ بہت سنگین نظر آتا ہے ہمیں اس کی کھوج لگانی چاہیے اور یہیں رہنا چاہیے۔ ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہیڈ کوارٹرز کے سامنے نادر ہاؤس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر انتظار کیا جائے اور سامنے ہیڈ کوارٹرز میں کارروائی دیکھی جائے۔
تھوڑی دیر بعد، دیکھا کہ آئی جی، مسعود محمود اپنی کار میں آئے اور ان کے ساتھ ان کے ماتحت پولیس افسر تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک ایمبولنس آئی۔ جیسے ہی یہ ایمبولنس ہیڈ کوارٹرز سے نکلی میں نے علیم علی سے کہا کہ اس کا تعاقب کرو۔ دبلا پتلا علیم، خالی جیب، پیدل اس ایمبولنس کے پیچھے بھاگا۔ شہر میں اس زمانہ میں صرف ایک سرکاری ہسپتال، سول ہسپتال تھا۔ علیم سیدھا سول ہسپتال پہنچا۔ وہاں اسے پتا چلا کہ ایک شخص کی لاش لائی گئی ہے۔ فی الفور تو معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لاش کس کی ہے اور اس کی ہلاکت کیسے ہوئی۔
علیم علی کی واپسی پر ہم پولیس ہیڈ کوارٹرز کے اندر گئے۔ وہاں ہمیں بتایا گیا کہ چند روز پہلے کھارادر سے ایک گجراتی کو چوریوں کی وارداتوں کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈی ایس پی اقبال شاہ اس سے پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ اس دوران اس نے تیسری منزل سے نیچے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔
شام کو میں نے اس حادثے کے بارے میں، اقبال شاہ کو ٹیلی فون کیا تو وہ دیوانوں کی طرح چلانے لگے اور اس گجراتی کو گالیاں دینے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شخص نے بالکونی سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ میں نے پوچھا کہ یہ شخص آپ کی تحویل میں تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے آپ کی حراست سے بھاگ کر چھلانگ لگا کر اپنی جان لے لی۔ اقبال شاہ نے اس شخص کو گالیاں دیتے ہوئے ٹیلی فون بند کر دیا۔
دوسرے روز امروز اور ملت گجراتی میں شہہ سرخیوں سے اس واقعہ کی تفصیلات شائع ہوئیں۔
بہت کم لوگوں نے اس شخص کی ہلاکت کے بارے میں پولیس کے بیان پر یقین کیا۔ کراچی کے شہریوں اور خاص طور پر گجراتیوں میں غصہ کی آگ بھڑک اٹھی۔ اقبال شاہ پر الزام لگا کہ کھارادر سے گرفتار کیے جانے والے شخص کو پوچھ گچھ کے دوران اس بری طرح سے مارا پیٹا کہ اس نے دم توڑ دیا۔ اس کی موت کی اصل وجہ چھپانے کے لیے اس کی لاش بالکونی سے نیچے گرا دی گئی اور یہ جھوٹ گھڑا گیا کہ اس نے خود کشی کر لی ہے۔
اس واقعہ سے چند روز قبل، وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے استعفے کے بعد، ری پبلکن پارٹی، کرشک سرامک پارٹی اور نظامِ اسلام پارٹی کی حمایت سے مسلم لیگ کے رہنما، اسمعیل ابراہیم چندریگر نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تھی۔
لیکن کراچی کے شہریوں اور خاص طور پر گجراتی تاجروں کے، کھارادر کے ایک گجراتی کی پولیس کی تحویل میں پراسرار موت پر زبردست احتجاج اور ہڑتال نے وزیر اعظم چندریگر کی وزارت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، گو اقبال شاہ کو کراچی کے ایس ایس پی راؤ انوار کی طرح فرار ہونے کا موقع نہیں ملا اور وہ گرفتار کرلیے گئے اور ان کے خلاف ماورائے عدالت قتل کے الزام میں مقدمہ کی طویل کارروائی شروع ہوئی لیکن صدر اسکندر مرزا اور سر فیروز خان نون نے جو وزیر اعظم چندریگر سے خوش نہیں تھے، ان مظاہروں اور احتجاج سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور انہوں نے چندریگر کو وزارت سے ہٹانے کے لیے عوامی لیگ کی مدد سے آئی آئی چندریگر کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جو منظور ہو گئی اور چندریگر کو 11 دسمبر 1957 کو وزارت عظمیٰ سے استعفا دینا پڑا۔ اسمعیل ابراہیم چندریگر وزارت عظمیٰ پر صرف 55 روز فائز رہے۔ اور یون وہ پاکستان کے سب سے کم مدتی وزیر اعظم ثابت ہوئے، پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ پولیس کے ماورائے قتل کے اقدام کی بناء پر وزیر اعظم کو اپنی وزارت کی قربانی دینی پڑی۔