قانون نہیں نااہلی کا سبب دور کریں

257

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پشاور میں ایک بڑے جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام مجھے اتنے ووٹ دیں کہ میری نااہلی ختم ہوجائے۔ اب مجھے مستقل نااہل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہیلی کاپٹر چور کو صادق اور امین قرار دیا گیا، میاں نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ آئندہ خیبرپختونخوا میں بھی حکومت بنائیں گے۔ وہ طلال چودھری اور دانیال عزیز کی طلبی پر بھی برہم تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی نے بھی خطاب کیا دونوں کا دعویٰ یہی تھا کہ عوام نے میاں نواز شریف کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ باپ بیٹی کا زور اس بات پر ہے کہ عدالت نے میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ غلط کیا تھا اب میاں صاحب عدلیہ کے خلاف بڑی جارحانہ مہم چلارہے ہیں کھل کر عدلیہ کو الزام دے رہے ہیں۔ جانبداری، کسی سے ڈکٹیشن لینے اور فیصلہ کہیں اور سے آنے کے الزامات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ آمروں کی سرپرستی کا الزام بھی شامل ہے۔لیکن عدلیہ نوٹس نہیں لے رہی۔ کیوں؟ اس کا جواب عدلیہ ہی کے پاس ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں عوام کے ووٹوں کی سند کی بڑی اہم ہوتی ہے۔ عوام جس کو بھی ووٹ دے دیں اس کو حکومت بنانے کا اختیار ملتا ہے۔ پانچ سال کے لیے اس کو یا اس کی پارٹی کو ملک کے معاملات پر اقتدار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سارے کام دنیا بھر میں کسی نہ کسی قاعدے قانون اور ضابطے کے پابند ہوتے ہیں۔ ووٹ تو کراچی و حیدر آباد میں ایم کیو ایم نے بھی لاکھوں لیے ہیں لیکن دنیا جانتی ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹوں کی حقیقی تعداد وہ نہیں ہوتی تھی جو اس کے بیلٹ بکس سے نکلتے تھے یا نتائج میں بتائے جاتے تھے وہ کسی بھی طرح دو کروڑ افراد کے نمائندے نہیں تھے۔ لیکن وہ پہلے خود کو ایک کروڑ پھر ڈیڑھ کروڑ اور بعد میں دو کروڑ افراد کا نمائندہ کہنے لگے تھے۔ سب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی الیکشن حقیقتاً بھی جیتا ہے تو ان کی صرف اکثریت تھی ایک لاکھ 87 ہزار ووٹ ان کے کسی امیدوار کو حقیقتاً نہیں ملے تھے۔ ٹھپے اور ڈبے بھرنے کے وہ ماہر تھے۔ میاں نواز شریف کے کئی حلقوں میں ہزارہا ووٹوں کے فرق تو کہا جاتا ہے کہ وہ ڈبے بھرنے والوں نے بھر دیے تھے لہٰذا اول تو صرف ووٹ کسی کی صداقت اور امانت کی سند نہیں کیوں کہ اگر عدالت و الیکشن کمیشن کے ضابطوں کے مطابق کوئی شخص صادق اور امین نہیں تو پھر اس کو پارلیمنٹ کیسے اہل قرار دے سکتی ہے۔ کیا قانون میں ترمیم کرنے سے کوئی ایسا شخص اہل قرار پائے گا جس نے کاغذات داخل کرتے ہوئے حقائق چھپائے ہوں۔ میاں صاحب ایک معاملے میں مشتبہ نہیں ہیں کئی معاملات چل رہے ہیں انہیں عدالتوں ہی سے سند لینی ہوگی۔ سابق وزیراعظم چاہتے ہیں کہ بہت سارے ووٹ ملیں پھر وہ نااہلی کا قانون ہی بدل ڈالیں۔ یعنی عقل کا نام جنوں اور جنوں کا خرد رکھ دیں گے پھر کہیں گے کہ دیکھو قانون کے تحت میں اہل ہوں۔ اور برطانوی تو کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سارے فیصلے کرسکتی ہے۔ کل سے کوا سفید قرار دے دیا جائے تو سارا ملک اس لیے کوے کو سفید کہے گا کہ پارلیمنٹ کی اکثریت نے کوے کو سفید قرار دے دیا ہے۔ اس بات پر ملک کی اکثریت یقین نہیں کرے گی لیکن قانون تو یہی کہہ رہا ہوگا۔ آج کل بعینہ یہی صورتحال ہے۔ قانون تو کہہ رہا ہے کہ میاں نواز شریف نا اہل ہیں بس ان کی پارٹی کے لوگ اس پر یقین نہیں کررہے جب یہ قانون بدل لیں گے تو قوم یقین نہیں کرے گی، قانوناً وہ اہل ہوجائیں گے۔ آخر اس ملک میں جنرل پرویز ملک کے صدر رہے، جنرل ضیا ملک کے صدر رہے، جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ رہے۔ جب کہ ملک کا آئین کسی فوجی جرنیل کے صدر بننے کو جائز قرار نہیں دیتا۔ ان لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ ایل ایف او اور مارشل لا ضابطے جاری کیے اس کو قانون قرار دیا اور صدر بن گئے۔ تو کیا یہ اہل ہوگئے۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ میاں صاحب قانون بدلنے کے بجائے نا اہلی کے اسباب کو دور کریں۔ؒ کیا آپ یہ قانون بنانا چاہتے ہیں کہ غلط بیانی کرنے والا اہل ہے اور اسے ملک کے معاملات کا ذمے دار بنایا جاسکتا ہے۔ تو پھر جیلوں میں قید بہت سے جرائم پیشہ افراد کو یہ حق مل جائے گا۔کراچی میں لیاری سے سردار عزیر بلوچ تو رکن قومی اسمبلی بن ہی جائیں گے۔ کیونکہ انہیں بہت سارے ووٹ بھی ملے ہوں گے۔ یہ کیا کہ الطاف حسین کو تو ملک میں تقریر کی اجازت نہیں ہے کیا اسے بھی پھر الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے گا۔ ایک حد تک تو اہلیت ثابت کرنے کے لیے عوامی طاقت استعمال کی جانی چاہیے لیکن اہلیت اور نا اہلی کے ضوابط کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر قیمت پر اقتدار کے حصول کی خواہش ملک کا نظام تلپٹ کردے گی۔