کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) الطاف حسین کی 1984ء میں قائم کی گئی ” تحریک ” ایم کیو ایم پاکستان میں تبدیل ہونے کے باوجود سنبھلنے کے بجائے بکھرنے کی طرف گامزن ہے۔ اس بات کا اظہار پیر اور منگل کی شب سے شروع ہونے والی” ہاٹ وار ” سے کیا جارہا ہے۔ اس تنازع کی بنیاد مسلم لیگ فنکشنل کو خیر باد کرکے اچانک ہی ایک سال قبل ایم کیو ایم پاکستان میں شامل ہونے والے سونے کے تاجر کامران ٹیسوری کو قرار دیا جارہا ہے۔ منگل کی شام تک واضح طور پر ایم کیو ایم دو گروپوں میں تقسیم نظر آرہی تھی۔ عامر خان کی قیادت میں موجود گروہ میں ایم کیو ایم کے سینئرز ، سنجیدہ اور معروف رہنماؤں کی اکثریت نظر آرہی ہے جبکہ عام کارکنوں کی واضح ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ دیکھی جارہی ہے۔ کارکنوں کی بڑی حمایت دیکھ کر انہیں حوصلہ ملا تاہم وہ منگل کو اپنے مرکز بہادرآباد نہیں گئے جبکہ مرکزی آفس بہادرآباد سے فاروق ستار کو منانے کے لیے پیر کالونی پہنچنے والے سینئرز رہنماؤں سے ڈاکٹر فاروق ستار نے ملاقات کے باوجود ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا مؤقف تھا کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان نے سربراہ ( ان کی) عدم موجودگی میں رابطہ کمیٹی کے ایک رہنما کو6 ماہ کے لیے معطل کیا ہے جسے میں تسلیم نہیں کر سکتا۔ ایم کیو ایم پاکستان میں جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے اس کی کھچڑی گزشتہ 6 ماہ سے پک رہی تھی‘ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عین سینیٹ اور عام انتخابات کے قریب ایم کیو ایم کے درمیان گروپ بندی سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ یہ تنظیم اگست2016ء سے ہی متنازع حالات میں غیر مستحکم طور پر چل رہی تھی اور اس کا کنٹرول ماضی کی طرح ڈاکٹر فاروق ستار کو ان کے اعلانات کے مطابق نہیں مل سکا تھا۔ ایسے میں کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا انتخاب لڑانے کے لیے ڈاکٹر فاروق ستار کی کھلی حمایت اور دباؤ پارٹی کے سینئرز میں بد دلی پیدا ہونے کا باعث بنی۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ آخر ٹیسوری کے لیے اس قدر جلد بازی کیوں کی جا رہی ہے۔ یہی واحد وجہ تھی جس کے باعث چنگاری شعلہ کا کام کرگئی اور پارلیمنٹ میں موجود اراکین سمیت متعدد اہم رہنماؤں نے فاروق ستار کے اس دباؤ کو سننے سے انکار کیا۔ پھر سب عیاں ہوگیا۔ اس دوران دونوں گروپ اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے تاہم ان حالات کا جواز بننے والے کامران ٹیسوری مسکراتے ہوئے نظر آئے۔ فوٹیج دیکھنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ “ٹیسوری کی مسکراہٹ فاتحانہ تھی”۔ جبکہ فاروق ستار اور عامر خان کے چہروں سے مسکراہٹ دور ہو چکی تھی۔ ٹیسوری کی اس مسکراہٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ کامیابی کی مسکراہٹ تھی یا پشیمانی کو چھپانے کی۔ خیال ہے کہ ٹیسوری کی موجودگی ایم کیو ایم کو مزید حصوں میں تقسیم کرنے کا باعث بنی ہے۔ اس کے اسکرپٹ رائٹر ایم کیو ایم کے اندر بھی اور باہر بھی ہوسکتے ہیں وہ بھی ہو سکتے ہیں جن کی خواہش تھی کہ ایم کیو ایم کو مستحکم نہ ہونے دینا بلکہ اس کے مزید ٹکڑے کرنا ہے۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ بہت سے کارکنوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی ہے کہ ٹیسوری کو بانی ایم کیوایم الطاف حسین کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے ایک رہنما سینیٹ میں لانے کے خواہشمند ہیں۔ اس نان ایشو کو ایشو بنا کر آپس میں دوریاں پیدا کرنے والوں کے رویوں سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ کسی جانب سے ایم کیو ایم کو مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ ایسا بھی تاثر مل رہا ہے کہ بعض عناصر” ہمیں کھیلنے نہیں دیا گیا تو دوسروں کو بھی نہ کھیلنے دیا جائے گا “کی ضد پر ڈٹ چکے ہیں۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار غلط کر رہے ہیں مگر واضح ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں میں کوئی ایک ایسا بھی نہیں ہے جو غلط کو فوری درست کرے اور صورتحال کو کنٹرول میں کر سکے۔ جبکہ عام افراد کھل کر یہ کہہ رہیں ہیں کہ “یہ مکافات عمل کا سلسلہ ہے اور کچھ بھی نہیں” ایم کیو ایم اسی طرح ٹوٹتی رہے گی جس طرح32 سال تک لوگوں کی ” امیدوں” کو توڑ کر مصنوعی مستحکم ہوتی رہی۔ اس تنازع کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان نہ صرف سینیٹ بلکہ عام انتخابات سے بھی دور ہو سکتی ہے۔ اگر ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان گروپ کے درمیان حالات کے دباؤ کے باعث وقتی طور پر معاملات معمول پر بھی آگئے تو پھر کسی وقت خراب بھی دوبارہ خراب ہوسکتے ہیں۔