ایم کیو ایم پاکستان اور کامران ٹیسوری

729

خیال تھا کہ الطاف حسین کی بنائی ہوئی ایم کیو ایم 23اگست کے بعد ’’سنبھل‘‘ رہی ہے مگر پیر اور منگل کی رات کراچی کے پیر کالونی اور بہادرآباد میں نصف رات جو صورت حال نظر آئی اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم اب بھی ’’بکھر نے‘‘ کے عمل سے گزر رہی ہے۔ شاید یہ اس کا مکافات ہے۔ 23 اگست 2016 کو قائم ہونے والی ایم کیو ایم پاکستان، 1984 میں الطاف حسین کی بنائی ہوئی مہاجر قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) سے کہیں زیادہ کمزور تو نظر ہی آرہی تھی لیکن یہ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس ایم کیو ایم میں محض ایک سال قبل شامل ہونے والے تاجر کامران ٹیسوری اس قدر اہم ہوں گے کہ ان کی خواہش پر انہیں سینیٹر کے انتخاب کے لیے امیدوار نامزد کرنے کے لیے پرانے اور اہم رہنماؤں کو ناراض کردیا جائے گا اور انہیں اختلاف کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
تازہ صورت حال میں عامرخان اور خالد مقبول صدیقی، امین الحق سمیت ایم کیو ایم کے اہم اور معروف رہنماء اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان کی اکثریت ڈاکٹر فاروق ستار سے ناراض ہوکر بہادر آباد میں واقع دفتر کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔ بہادرآباد میں جمع رہنماؤں کا کہنا تھا کہ: ’’اب بھی ہمارے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار ہیں۔ جب کہ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار جن کے ساتھ تنازعے کا باعث بننے والے کامران ٹیسوری، رابطہ کمیٹی کے شاہد پاشا اور چند دیگر غیر معروف تحریکی ذمے دار موجود ہیں، کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سربراہ کو اعتماد میں لیے بغیر رابطہ کمیٹی کے رکن کامران ٹیسوری کو معطل کرنے کا عمل خلاف اصول ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کارکن میرے ساتھ ہیں جن لوگوں نے تنظیمی قواعد کی خلاف ورزی کی ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق پارٹی سربراہ کے پاس ہے۔ اس تمام صورت حال میں ایم کیو ایم کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کی یہ کوشش تھی کہ بظاہر تبدیل اور تقسیم ہوتی ہوئی ایم کیو ایم پاکستان کو کسی بھی طرح متحد رکھیں، ان کا کہنا تھا کہ میں نے ابتداء ہی سے کوشش کی کہ ثالثی کا کردار ادا کرکے پارٹی کو متحد رکھوں۔ لیکن لگتا ہے کہ حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔
ایم کیو ایم میں پیدا ہونے والی اس چپقلش کے نتیجے میں سیاسی امور میں دلچسپی رکھنے والے افراد بھی یہ سوال کر رہے ہیں کہ: ’’آخر کامران ٹیسوری ایسی کون سی شخصیت ہیں جنہیں صرف ایک سال ہی میں اہم ترین بناکر ان رہنماؤں کے ساتھ کھڑا کردیا گیا ہے جو ایم کیوایم کے بانی ارکان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کامران ٹیسوری مسلم لیگ فنکشنل سے اچانک ہی علیحدہ ہوکر ایم کیو ایم میں شامل ہوئے اور پھر دنوں کے اندر چھا گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سونے کے تاجر ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کو ’’سلانے‘‘ کے لیے اس میں شامل ہوئے ہیں یا کیے گئے ہیں۔ اگر یہی مفروضہ حقیقت تسلیم کرلیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ: ’’ٹیسوری نے اپنا نصف ہدف تو پورا کرہی لیا ہے‘‘۔ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم میں شامل ہونے سے قبل پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں بھی اثر و رسوخ رکھا کرتے تھے۔ لیاری ایکسپریس وے کے لیے ہونے والے مختلف ٹھیکوں اور اس کے ری سیٹلمنٹ ہاؤسنگ منصوبے کے حوالے سے بھی متعلقہ افراد کی زبانوں پر ان کا نام ہوا کرتا تھا۔ جس سے وہ سونے کے تاجر کم ’’بااثر بروکر‘‘ زیادہ لگا کرتے تھے۔ تاہم یہ اثر سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی تبدیلی کے ساتھ ہی زائل ہوگیا۔ مرادعلی شاہ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سی ایم ہاؤس اور دیگر بعض اہم عمارتوں میں ان کا داخلہ بند ہوگیا تھا۔ کامران ٹیسوری کے بارے میں فنکشل لیگ سے منسلک رہنما بھی کوئی خاصی معلومات نہیں رکھتے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی سے جڑی ہوئی شخصیات انہیں ایک پرسرار شخصیت کہا کرتے ہیں۔ فنکشل لیگ کی طرح ایم کیو ایم کے اہم لوگ بھی ان کی شمولیت کے حوالے سے کوئی خاص معلومات نہیں رکھتے۔ بہت سے لوگ تو ایک دوسرے سے یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ: ’’یار یہ کون ہے ٹیسوری؟‘‘۔
سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کا کہنا ہے کہ: ’’ٹیسوری کے پاس پیسہ بہت ہے، وہ ایسا ہی کام کرتا ہے‘‘۔
کامران ٹیسوری جو بھی ہو جہاں سے بھی اور جس نے بھی انہیں ایم کیو ایم میں داخل ہونے کا راستہ دکھایا اور داخل کیا وہ کم ازکم ایم کیو ایم سے مخلص نہیں ہوسکتا۔ ایم کیو ایم سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حیرت تو یہ ہے کہ ٹیسوری نے بہت کم وقت میں ایم کیو ایم کی کمزور نبض کو جان کر اسے نہ صرف دبا دیا ہے بلکہ ایم کیو ایم کو عین عام انتخابات کے قریب اس مقام پر پہنچا دیا جہاں سے اس کا سنبھلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اگرچہ ایم کیو ایم پاکستان کو متحد اور مستحکم رکھنے کے لیے عامر خان، سینئر ساتھیوں کے مشورے اور تعاون سے اسے بچانے کے لیے متحرک نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار بھی اسی کوشش میں اپنے عام اور غیر ذمے دار کارکنوں سے اچانک انعقاد کیے جانے والے غیر اعلانیہ جنرل ورکرز اجلاس سے اپنے حق میں ووٹ لیکر پر امید نظر آتے ہیں کہ وہ جلد ہی صورت حال کو اپنے قابو میں کرلیں گے۔ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ: ’’ہماری اصل طاقت کارکن ہے‘‘۔
امن و امان قابو میں آجانے والے حالات سے فوری طور پر اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ عام ورکرز کے فعال ہونے سے کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اس کالم کی آخری سطریں لکھے جانے تک ایم کیو ایم کے بہادرآباد آباد مرکز پر اچانک پولیس نے گھراؤ کرلیا تھا۔ جب کہ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار نے پی آئی بی اسٹیڈیم میں جنرل ورکرز اجلاس طلب کیا ہے جس سے ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھی رہنما خطاب کریں گے۔
خیال ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں تازہ دھڑے بندی کے حوالے سے سب سے زیادہ وہ عناصر خوش ہوں گے جنہوں نے دو سال قبل ایم کیو ایم کو کم ازکم چار حصوں میں تقسیم کرنے کا عزم کیا تھا۔ جب کہ ایم کیو ایم سے ٹوٹ کر الگ جماعتیں بنانے والے لیڈرز مصطفی کمال اور دیگر کو اپنے فیصلوں پر نازاں ہونے کا تو حق ہے ناں!۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں نان ایشو کو ایشو بنانے والے دراصل غیر اعلانیہ طور پر ایم کیو ایم بانی کا کیس لڑرہے ہیں۔ جب کہ ان کے مخالف اصل ایم کیو ایم کو بچانے کی جہد کررہے ہیں۔