حق تو یہ ہے کہ حق ملا نہ کبھی

595

ماسی کی ماہانہ تنخواہ تو ۔۔۔ بعد بارگیننگ، مذاکرات اور سودے بازی کے۔۔۔ 1500/=روپے سکہ رائج الوقت ماہانہ طے پائی تھی۔ مگر پہلی ہی تنخواہ جب بیگم نے 1200/=روپے تھمائی اور ماسی نے تھام بھی لی تو ہم سے نہ رہا گیا۔ ’’دخل در واجبات‘‘ کرتے ہوئے بولے:
’’یہ کیا حق تلفی ہے؟ جو طے شدہ تنخواہ ہے وہ دیجیے۔ آپ تو مردوں کو استحصالی وغیرہ قرار۔۔۔‘‘
ہمیں ڈانٹتے ہوئے بولیں:
’’آپ بیچ میں نہ بولیں۔ مہینے بھر میں پورے چھ دن غائب رہی ہے۔ اس کے چھے ناغے کاٹ کر پورے پیسے دے رہی ہوں‘‘۔
عرض کیا: ’’ہم بیچ میں نہیں بول رہے ہیں بیگم! معاملہ کنارے لگتا دیکھ کر بول رہے ہیں۔۔۔ کیوں ماسی؟ تم چھ دن کیوں غائب رہیں؟‘‘
ماسی نے جواب دیا:
’’صاب! تین دن تو میں خود سخت بخار میں پھنک رہی تھی۔ اور تین دن کے لیے گاؤں چلی گئی تھی۔ میرے سگے بھائی کی بیوی فوت ہوگئی تھی۔۔۔‘‘
ہم نے تفتیش کی: ’’کیا تم نے بیگم صاحبہ کو بتایا نہیں تھا؟‘‘
ماسی بولی: ’’بتایا تھا صاب جی! بیگم صاب کو سب پتا ہے۔ مگر چھٹیوں کے پیسے تو سبھی کاٹتے ہیں صاب! بیگم صاحبہ صحیح پیسے دے رہی ہیں‘‘۔
یہ سن کر بیگم نے ہماری طرف فخریہ بلکہ ’’فاخرانہ‘‘ انداز میں دیکھا تو ہم نے کہا:
’’کیا ماسی کی کوئی رخصت اتفاقی و حادثاتی، طبی رخصت یا رخصتِ استحقاقی وغیرہ نہیں بنتی؟‘‘
بیگم صاحبہ نے ہمیں قہر آلود نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: ’’آپ رکھیے۔۔۔ یہ تحریک استحقاق و اتفاق و حادثات وطبیات۔۔۔ اپنے ہی پاس۔ سنو ماسی! کل صبح تم جلدی آجانا۔ مجھے ایک ’واک‘ میں جانا ہے‘‘۔
ہمیں معلوم تھا کہ یہ ’’واک‘‘ حقوق نسواں کے حصول کے لیے منعقد ہورہی ہے۔ سو ہم نے ماسی کو مخاطب کیا:
’’ماسی! کل تم بھی اس واک میں شامل ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز کیوں بلند نہیں کرتیں؟ آخر تم بھی تو ورکنگ وومن ہو۔۔۔‘‘
ماسی نے حیرت سے آنکھیں پھیلا لیں ۔۔۔ ’’ہیں جی! صاب جی؟‘‘ ۔۔۔ اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایسے ہونق انداز میں ہمیں دیکھنے لگی جیسے ہم فرانسیسی بول رہے ہوں۔ بیگم صاحبہ نے اس مرحلہ پر مداخلت کرتے ہوئے، ہمیں مداخلت نہ کرنے کے احکامات جاری کیے:
’’اچھا آپ ہٹیے ۔۔۔ صبح سے شام تک بیسیوں گھروں میں کام کرکے یہ آپ سے زیادہ ہی کما لیتی ہوگی‘‘۔
ہم نے معصومیت سے پوچھا:
’’بیگم! پھر صبح سے شام تک اس کے گھر کا جھاڑو برتن کون کرتا ہوگا؟ پونچھا کون لگاتا ہوگا؟‘‘
بیگم کے بجائے ماسی بول پڑی:
’’شام کو جاکر خود ہی کرتی ہوں صاب جی! گھر والا تو مدتوں سے بیماراور بستر پر پڑا ہوا ہے۔ اُس کی دوا، خدمت، دیکھ بھال، کھانا پکانا، بچوں کو سنبھالنا پھر روز صبح صبح اُٹھ کر کام پر نکل جانا۔۔۔‘‘
بیگم نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
’’ماسی! تم اپنا وقت خراب نہ کرو، جاؤ اپنے کام نمٹاؤ۔ صاحب تو اسی طرح باتیں بناتے رہیں گے‘‘۔
ہم نے بدک کر کہا:
’’ہم باتیں نہیں بنا رہے ہیں بیگم! ماسی کا کام بنا رہے ہیں۔ اس ماسی کے نسوانی حقوق بلکہ انسانی حقوق، اس کے لیے طبی سہولتوں کے حصول اوردیگر مسائل کے حل کی جدوجہد کون کرے گا؟ اِس کے حقوق تو حقوقِ نسواں کی علمبردار خواتین ہی سلب کر رہی ہیں۔ کیا اس کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ مقام حاصل کرنے کی تمنا نہ ہوگی؟ کیا ماسی کو بھی ’’مساوی حقوق‘‘ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟‘‘
بیگم صاحبہ تڑپ کر بولیں: ’’بالکل نہیں ہے‘‘۔ اور یہ کہہ کر اپنے پاؤں پٹختے ہوئے باہر چل دیں۔
آپ نے ہر ’’یومِ حقوقِ نسواں‘‘ پر بڑی لچھے دار نسوانی تقریریں سنی ہوں گی۔ بہت طرح دار تحریریں پڑھی ہوں گی۔ حقوقِ نسواں کے چمپئنز اور حقوقِ نسواں کی ’چمپانزیوں‘ کی دیارِ مغرب سے لائی ہوئی دِل فریب مثالیں بھی سنی ہوں گی۔ مگر صرف حقوقِ نسواں پر بس نہیں۔ حقوقِ انساں اور حقوقِ نسواں سمیت دُنیا میں جتنی اقسام کے ’’حقوق‘‘ ہیں ان سب کے ’’حقہ بردار‘‘ یہی کرتے ہیں۔ بقول ضمیر جعفری:
جو انساں نوعِ انسانی کا استیصال کرتے ہیں
نہایت ریشمی الفاظ استعمال کرتے ہیں
حقوق کی جنگ لڑنے والے خود جن لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں، اُن غریبوں کا مسیحا کوئی نہیں۔ سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے، کہ انسانوں کے بنیادی حقوق کا سب سے بڑا جنگجو ہمارا میڈیا ہے۔ مگر جو ادارے میڈیا کے ٹائیکون یا ذرائع ابلاغ کے برہمن ہیں، وہ اپنے زیر نگیں انسانوں کی جو حق سلبی کرتے ہیں، کبھی اُس کے خلاف بھی کوئی آواز اُٹھتی ہوئی آپ نے کہیں سنی ہے؟
سنیں گے کیسے؟ ہے کسی میں ہمت جو ان کے خلاف کوئی بات کسی اخبار میں شائع کرسکے؟ یا کسی چینل سے نشر کرسکے؟ حقہ پانی نہ بند کردیا جائے گا؟ ذرائع ابلاغ میں ایسے ادارے ایک اُنگلی کی پوروں پر گنے جاسکتے ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور اُنہیں تمام قانونی واجبات ادا کرتے ہیں۔ باقی سب تو بس واجبی سے ہیں۔
پھر جو سیاسی جماعتیں متوسط طبقے کے حقوق کے حصول اور غریب عوام پر ظلم، جبر اور اُن کے استیصال کے خلاف جدوجہدکرنے کا نعرہ لگاتی ہیں اور دعویٰ فرماتی ہیں، خود اُن کے ہاتھوں غریبوں اور متوسط طبقے کے ساتھ جو لوٹ مار ہوتی ہے، جو قتل و غارت کا بازار گرم کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ خود اپنے کارکنان کا خون بھی کردیا جاتا ہے، تو اُن کے کرتوتوں کو بھی ہمارے حق گو اور بے باک ذرائع ابلاغ ’’نامعلوم افراد‘‘ کے کھاتے میں ڈال آتے ہیں۔ مظلوموں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے اپنی جان، مال اور اپنے بزنس کا تحفظ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
آج تک حقوق کے حصول کی جنگ کبھی بھی اور کہیں بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ کہا جاتا ہے کہ حقوق کے حصول کی جنگ صرف اپنے فرائض ادا کرکے ہی جیتی جاسکتی ہے۔ مگر حاجی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک بھلا کب کامیاب ہوئی تھی جو ہماری ہوگی۔