رام راجیا رتھ یاترا، ایک نئی شاطرانہ چال

628

ہندوستان کی حکمران جنتا پارٹی کی سر پرست کٹر ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) 13فروری سے مسمار شدہ بابری مسجد کے شہر ایودھیا سے تامل ناڈو کے شہر رامیشورم تک، رام راجیا رتھ یاترا نکالنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ یہ یاترا 39دن تک جاری رہے گی اور 23مارچ تک چار ریاستوں سے گزر ے گی۔ یاترا کے دوران، رام مندر کے مسئلے پر چالیس جلسے ہوں گے۔ اتر پردیش کے کٹرہندو قوم پرست وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ ایودھیا میں وشو ہندو پریشد کے صدر دفاتر سے جہاں رام مندر کی تعمیر کے لیے کام ہورہا ہے، رتھ یاترا کا آغاز کریں گے۔ یاترا مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک اور کیرالا سے گزرے گی۔ یاترا کا رتھ جو بمبئی میں تیار کیا گیا ہے مسمار بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کے ماڈل کے طرز پر ہے۔
رتھ یاترا کا اہتمام، عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے بارے میں برسوں پرانے مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔ تاکہ عدالت عظمیٰ کی سماعت کے دوران سیاسی دباؤ رکھا جائے۔ اس مقدمے کی سماعت کے لیے چیف جسٹس دیپک مصرا کی سربراہی میں خاص بینچ تشکیل دی گئی ہے جس میں جسٹس عبد النظیر کے ساتھ جسٹس اشوک بھوشن شامل ہیں۔ رام راجیا رتھ یاترا کا سب سے بڑا مقصد بھارتیا جنتا پارٹی کا اگلے سال ہونے والے عام انتخابات، ہندوتوا اور رام مندر کی تعمیر کے نعرے پر لڑنا ہے۔ اس سلسلے میں حکمت عملی نہایت شاطرانہ انداز سے مرتب کی گئی ہے۔ ایک طرف شمالی ہندوستان میں رام مندر کی تعمیر کے جذباتی مسئلے کی آگ بھڑکانا ہے اور دوسری جانب اس کا اہم پہلو جنوبی ریاست تامل ناڈو کو اپنے پنجے میں جکڑنا ہے جہاں اب تک بھارتیا جنتا پارٹی اقتدار پر قبضہ کرنے میں سپھل نہیں رہی ہے۔
پھر یہ رتھ یاترا، کرناٹک سے گزرے گی جہاں اپریل میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس ریاست میں کانگریس حکمران ہے اور عام انتخابات سے پہلے، بھارتیا جنتا پارٹی اس ریاست سے کانگریس کو اکھاڑ پھینکنے کے جتن کر رہی ہے۔
28سال قبل، بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تھی جو بھارتیا جنتا پارٹی کے لیے اہم موڑ ثابت ہوئی تھی اور ملک میں ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھری تھی۔ پچھلے عام انتخابات میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارتیا جنتا پارٹی نے منظم طریقے سے ہندوتوا کی آگ برابر سلگائے رکھی ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور خوف و ہراس کی فضا قائم رکھی ہے۔ ان ریاستوں میں جہاں بھارتیا جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے گؤ رکھشکوں کی اس مہلک مہم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ جو لوگ گؤ رکھشکوں کے حملوں کا نشانہ بنے خود ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
نریندر مودی کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ انہوں نے ’’اچھے دن‘‘ کا نعرہ لگا کر عوام کو خوشحالی کا جو خواب دکھایا تھا وہ چکنا چور ہو گیا ہے، نوٹ بندی کی وجہ سے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے کیے اگلے عام انتخابات میں سارا زور ہندوتوا پر ہوگا اور اس کا تمام تر نشانہ مسلمان بنیں گے۔
رام راجیا رتھ یاترا کے ساتھ ساتھ بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندوتوا کی حکمت عملی کے تحت، مسلمانوں کو خائف کرنے اور کٹر ہندووں کا دل موہ لینے کے نہایت منظم مہم شروع کی ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ونئے کٹیار نے کھلم کھلا کہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے، انہیں پاکستان یا بنگلا دیش چلا جانا چاہیے۔ یہ آخر ہندوستان میں کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ہے کہ مسلمانوں نے مذہب کے نام پر ہندوستان تقسیم کیا ہے اور انہوں نے ایک الگ علاقہ لے لیا ہے اب انہیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ونئے کٹیار بجرنگ دل کے بانی صدر ہیں اور فیض آباد ایودھیا سے لوک سبھا کے رکن ہیں۔ کٹیار، 1980 اور 1990 میں بابری مسجد مسمار کر کے رام مندر کی تعمیر کی تحریک میں پیش پیش تھے اور 1992 میں بابری مسجد کی مسماری کے مقدمے میں ملزم ہیں۔ اس سے پہلے ونئے کٹیار نے کہا تھا کہ تاج محل کی جگہ ہمارا تیجو محل مندر تھا۔ اورنگ زیب نے اسے مسمار کر کے اس جگہ تاج محل تعمیر کر کے قبرستان بنا دیا ہے۔ کٹیار کو تاریخ کا علم نہیں۔ تاج محل اورنگ زیب نے نہیں بلکہ شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بہت جلد تاج محل کو تیج مندر میں تبدیل کردیں گے کیوں کہ یہ شیو کا مندر تھا۔ ونئے کٹیار بھارتیا جنتا پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ پارٹی کی طرف سے کسی روک ٹوک کے اور تردید کے یہ بیانات بے حد اہم ہیں، کیوں کہ بھارتیا جنتا پارٹی نہایت مرکزی پارٹی ہے اور اس کی پالیسی کے برخلاف کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے، لہٰذا عام خیال یہ ہے کہ کٹیار پارٹی کی شہہ پر مسلمانوں کے خلاف یہ ہرزہ درائی کر رہے ہیں۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے ریاستی اسمبلی کے ایک رکن سنگیت سوم نے دعویٰ کیا ہے کہ تاج محل اُن غداروں نے تعمیر کیا تھا جو ہندووں کا صفایا کرنا چاہتے تھے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت سے اتر پردیش میں بھارتیا جنتا پارٹی کے یوگی ادتیا ناتھ کی حکومت قائم ہوئی ہے، جب سے ریاست میں مسلم کُش فسادات میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال اتر پردیش میں 822 فسادات ہوئے جن میں ایک سو گیارہ افراد ہلاک ہوئے اور دو ہزار تین سو چوراسی افراد زخمی ہوئے۔ ان مسلم کُش فسادات کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی صورت حال پر تباہ کن اثر پڑا ہے اور عدم تحفظ کا احساس شدید ہوا ہے۔ وزیر مملکت برائے امور داخلہ ہنس راج اھیر نے لوک سبھا میں اعتراف کیا کہ پچھلے سال سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات اتر پردیش میں ہوئے۔