دودھ کی قیمت بڑھانے کی تیاری

581

کراچی کے ڈیری فارمرز نے یکطرفہ طور پر دودھ کی قیمت میں 20روپے فی کلو کا اضافہ کردیا ہے۔ اس طرح 85 روپے کلو ملنے والا دودھ 105روپے فی کلو ہوگیا ہے۔ تاہم خوردہ فروشوں نے قیمت بڑھانے سے انکار کردیا ہے لیکن ڈیری فارمرز اور تھوک فروشوں ( ہول سیل ڈیلرز) کا اصرار ہے کہ جس کو دودھ لینا ہے وہ ان کی مقرر کردہ قیمت ہی پر خریدے۔ ڈیری فارمز سے دودھ 90روپے کلو ملے گا جو خوردہ فروشوں تک پہنچتے پہنچتے 105 روپے ہو جائے گا۔ ابھی تو یہ ہوا ہے کہ کمشنر کراچی نے بھی دودھ کی قیمت میں اضافے سے انکار کردیا ہے اور گراں فروشی پر کچھ ڈیری فارمرز اور ہول سیلرز گرفتار بھی کیے گئے ہیں لیکن ایسی وارداتیں کئی بار ہو چکی ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ انتظامیہ اور گراں فروشوں میں کسی ایک قیمت پر سمجھوتا ہو جاتا ہے مثلاً اگر مطالبہ 20روپے بڑھانے کا ہے تو مذاکرات کر کے 10روپے اضافے کی اجازت مل جاتی ہے۔ ایسا بارہا ہو چکا ہے اور امکان ہے کہ اس بار بھی سودے بازی ہو جائے گی۔ گزشتہ بدھ کو کمشنر نے قیمتوں کا جائزہ لینے کے لیے بلایا گیا اجلاس ملتوی کردیا۔ ڈیری فارمرز، تھوک فروشوں اور خوردہ فروشوں نے کمشنر ہاؤس پر مظاہرہ بھی کیا اور رینجرز کو طلب کرنا پڑا۔ خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ ڈیری فارمرز اوپن مارکیٹ میں من مانی قیمت پر دودھ فروخت کررہے ہیں۔ اب تک یہ ہو رہا تھا کہ ڈیری فارمرز گائے بھینسوں کو ایسے انجکشن لگا رہے تھے جن سے مویشی زیادہ دودھ دے رہے تھے لیکن یہ انجکشن صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان پر پابندی لگنے سے دودھ کی مصنوعی پیداوار میں فرق پڑا ہے۔ اس کو جواز بنا کر قیمت بڑھائی جارہی ہے۔ دودھ انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے خاص طور پر شیر خوار بچوں کے لیے لازمی ہے۔ اب اگر دودھ کی قیمت بڑھتی ہے یا اس کی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے تو ڈبا بند ( ٹیٹرا پیک) دودھ کی فروخت بڑھے گی جو پہلے ہی نہ صرف مہنگا ہے بلکہ عدالتی تحقیقات کے مطابق اس کے کئی برانڈ مضر صحت ہیں اور اس کو تازہ دکھانے کے لیے انتہائی خطرناک اجزاء ملائے جارہے ہیں۔ ایسے کئی برانڈز پر پابندی لگ چکی ہے۔ پنجاب میں تو کھلے دودھ کی جانچ پڑتال کر کے ہزاروں من دودھ ضائع کیا جاچکا ہے۔ ابھی یہ کام کراچی سمیت سندھ میں نہیں ہوا۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ خالص دودھ دستیاب نہیں ہے، پانی ملانا تو عام بات ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بھی دودھ کی قیمتوں میں اضافے کو عوام پر ظلم قرار دیا ہے۔ لیکن کون سا ایسا ظلم ہے جو عوام پر نہیں ہو رہا۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 100روپے تک تھیں تو اس وقت دودھ 70روپے کلو بک رہا تھا۔ لیکن بلا کسی جواز کے اس کی قیمت 85روپے کردی گئی۔ یعنی کراچی میں دودھ پہلے ہی مہنگا فروخت ہو رہا تھا لیکن شہری انتظامیہ اور حکومت نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ دودھ ہی کیا، حکومت کا کسی بھی چیز کی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ کوئی محکمہ پرائس کنٹرول بھی ہے لیکن کہاں ہے، کیا ہے یہ ایک راز ہی ہے۔ حکومت خود ہر ماہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کررہی ہے تو وہ ڈیری فارمرز کو کیا روکے گی۔ نتیجہ یہی نکلے گا کہ ٹھیک ہے، نہ تمہاری بات نہ ہماری، اضافہ کرلو مگر کچھ کم۔