چیف جسٹس نے ایسا کیوں کہا؟

250

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، عدالت عظمیٰ کے سب سے بڑے جج جناب ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ’’ ججوں کو کوئی نہیں نکال سکتا‘‘۔ لیکن یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ کسی کی دھمکی کا جواب ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کا ٹولہ آئے دن عدلیہ کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ کسی آئینی ادارے کو دھمکانا، تنقید کرنا آرٹیکل 5کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ ہم جواب میں جلسے کرسکتے ہیں نہ ہاتھ اٹھا سکتے ہیں ، عوام ہماری ریڑھ کی ہڈی بنیں گے۔ معزز ججوں کی مجبوری ہے کہ جس طرح جلسوں میں عدلیہ اور ججوں پر نازیبا تنقید بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دھمکیاں دی جارہی ہیں اس کا جواب کسی جلسے جلوس میں نہیں دے سکتے۔ لیکن جہاں تک عوام کو عدلیہ کی ریڑھ کی ہڈی قرار دینے کی بات ہے تو نواز شریف اور ان کا ٹولہ ان عوام ہی کے برتے پر اونچی ہواؤں میں اڑ رہا ہے اور جلسوں میں انہی سے تائید حاصل کررہا ہے۔ چنانچہ یہ تعین کرنا آسان نہیں کہ جن کو عوام کہا جاتا ہے وہ کس کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ سب کا زور عوام ہی پر چلتا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہر ایک اپنی بندوق عوام کے کندھے پر رکھ کر چلا رہا ہے اور ایسے کہ عوام کو پتا ہی نہیں چلتا۔ عوام اگر عدلیہ اور ججوں کی ریڑھ کی ہڈی بن جائیں تو ایسے جلسوں میں شریک ہی نہ ہوں جہاں عدلیہ کو گالیاں پڑتی ہیں ۔ جناب چیف جسٹس نے انتخابی اصلاحات میں ترمیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے میاں نواز شریف کے وکیل راجا ظفر الحق سے پوچھا کہ آج کل ہمیں ڈرانے والے آپ کے لوگ نہیں آرہے، انہیں لائیں۔ ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف تھا جنہوں نے عدالت میں حاضر ہونے سے انکار کردیا ہے اور عدالت نے انتباہ کیا ہے کہ ایسے میں فیصلہ یکطرفہ ہوسکتا ہے۔ عدلیہ اور ججوں کو دھمکیاں دینے والوں میں اتنی جرأت تو ہونی چاہیے کہ وہ ججوں کا سامنا کرسکیں۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہم پریشان ہیں نہ ہی قوم، جو ہوا اور آئندہ ہوگا یہ اللہ کی نشانی ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت ابھی جوان ہے، کوئی شخص ملک تباہ نہیں کرسکے گا۔ عدالت کو متنازع بنایا جارہا ہے ، سزا دے سکتے ہیں ۔ عدلیہ سے محاذ آرائی کرنے والے شاید اسی کو جمہوریت سمجھ رہے ہیں حالاں کہ عدالتیں آئین کے تحت بنائی گئی ہیں اور اگر عدالتیں ختم ہو گئیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا۔ ویسے تو اب بھی جنگل کا قانون ہی جگہ جگہ رائج ہے تاہم عدالتوں کی وجہ سے انصاف بھی مل جاتا ہے گو کہ تاخیر سے سہی لیکن عدالتیں اب بھی عوام کی امیدوں کا مرکز ہیں اور حکمران طبقہ محض ذاتی انتقام کے تحت عدالتوں کو مشکوک بنا رہا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں کہ میرا وزیر اعظم تو نواز شریف ہے۔ پھر شاہد خاقان کیا کررہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے عدالت کی طرف سے نا اہل قرار دیے گئے شخص کو وزیر اعظم کہنے پر تفصیلات طلب کرلی ہیں اور جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ہے کہ کیا ان کے نزدیک عدالتی فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ؟ لیکن شاہد خاقان کو نواز شریف ہی نے وزیر اعظم بنایا ہے چنانچہ ان کی وفاداریاں اپنے باس ہی کے ساتھ ہیں ۔ یوں بھی شاہد خاقان عباسی کے پاس کسی عدالتی فیصلے پر کچھ گنوانے کے لیے نہیں ہے اور ان کی نظر یں اپنا مستقبل نواز شریف ہی کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔ابھی عدالت میں یہ طے ہونا باقی ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی کی مدت کیا ہو۔ اس مسئلہ پر نواز شریف نے عدالت میں حاضر ہونے سے انکار کردیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 62 کے تحت کسی رکن اسمبلی کی نا اہلی کی مدت اس اسمبلی تک ہوتی ہے اور وہ نئی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے کر دوبارہ منتخب ہوسکتا ہے۔لیکن کیا -62 ون۔ ایف کے تحت بھی ایسا ہی ہوگا، یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی جس کو دھمکیوں کا سامنا ہے۔