یوم یکجہتی اور ’’کیوں نکالا‘‘ کی صدائیں

211

عارف بہار

پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف مظفر آباد میں ایک بڑے جلسہ عام میں کھل کر کشمیریوں کی حمایت میں بات نہ کر سکے۔ انہوں نے بہت مبہم انداز میں کشمیریوں کی حمایت کا اعادہ کیا۔ نواشریف نے کشمیریوں کے ساتھ خون کے رشتے کا ذکر کیا۔ انہوں نے سری نگر کے عوام کو مخاطب کر کے حمایت پیغام دیا اور انہیں یقین دلایا کہ پاکستان کے عوام آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میاں نوازشریف عدالتی فیصلوں کے بعد ملک بھر میں جلسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پشاور کے جلسے نے ان کا اعتماد بظاہر بڑھا دیا تھا اور اس کے دوسرے ہی روز مظفر آباد میں ان کا جلسہ منعقد ہوا۔ خیال یہی تھا کہ ملک کے دوسرے شہروں میں منعقد ہونے والے جلسوں کے برعکس مظفر آباد میں ان کی تقریر کا محور اور مرکز مقبوضہ کشمیر کے حالات ہوں گے۔ مثبت اور قابل تقلید رویہ تو یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کے قومی راہنما کشمیر کی سرزمین پر ہوں تو انہیں اپنے ذاتی اور جماعتی معاملات کوہالہ اور منگلا پار ہی چھوڑ نے چاہئیں۔ یہاں ان کی توجہ کا مرکز کشمیر ہی رہنا چاہیے مگر یہ توقع بہت کم ہی پوری ہوتی ہے۔ نوازشریف نے آزادکشمیر کی تعمیر وترقی کے حوالے سے ذاتی حیثیت میں بھی کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا حتیٰ کہ انہوں نے آزادکشمیر میں اپنا رول طلب کرکے وزیرا عظم فاروق حیدر کی حکومت پر بھی ایک تلوار لٹکا دی۔
بھارت نے روز اوّل ہی سے پاکستان کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کی روش اختیار کرلی۔ پھر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کشمیر جیسی مسلمان اکثریتی ریاست پر حیلوں بہانوں سے قبضہ کرنا بھارت کی اسی سوچ کا عکاس تھا۔ کشمیریوں کے ساتھ حق خودارادیت کے وعدے کر کے بھارت کا مکر جانا بھی اسی ذہنیت کا عکاس تھا۔ ایک وقت تو وہ آیا جب بھارت نے پاکستان کو دولخت کرکے اپنا سارا غصہ اتارنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بھی بھارت کا غصہ پوری طرح اتر نہ سکا۔ بھارت نے حیلوں بہانوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں جا ری رکھیں۔ بھارت کی سوئی عملی طور پر تقسیم ہند کے عمل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ستر سال بیت گئے۔ اس عرصے میں زمانہ ہی نہیں دنیا بدل گئی۔ دنیا کے جغرافیے تبدیل ہوئے۔ سلطنتیں اُبھر کرڈوب گئیں۔ صدیوں کی بادشاہتیں زوال کا شکار ہوگئیں۔ انسان ترقی کرتا ہوا کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دونوں نے میزائل سازی کے ذریعے اسلحہ کے انبار لگا دیے مگر بھارت آج بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ بھارت آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں وہ 1947 میں تھا۔ یعنی پاکستان کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچایا جائے کشمیریوں کی جدوجہد کو طاقت کے ذریعے دبایا جائے۔ جب تک نیت تبدیل نہیں ہوتی عمل اور رویہ بھی نہیں بدلتا۔ بھارت کو اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اس کے بغیر پاکستان سے نہ ماننے کا گلہ بے سود ہے۔ اس وقت بھارت خوفناک تکبر کا شکار ہے۔ چین کے اخبار نے کچھ عرصہ قبل اپنے اداریے میں بجا طور پر لکھا تھا کہ امریکا اور مغربی ملکوں کی تعریفوں نے بھارت کو تکبر کا شکار کیا ہے۔ اسی لیے نریندر مودی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ وہ مصالحت اور مفاہمت کی کسی کوشش کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے لیے خود سپردگی اختیار کرے۔ یہ ناممکن بات ہے۔ پاکستان کی ساری جدوجہد بھارتی بالادستی کے خلاف جاری رہی ہے۔
آج روزانہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی جوان بھارتی گولیوں کا نشانہ بن کر منصب شہادت پر فائز ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی گردن کشمیر میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ دنیا نے کسی نہ کسی انداز میں کشمیر کی صورت حال کا نوٹس لیا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت مجبور ہوکر اب نظر بند اور اسیر حریت قیادت کی منت ترلے پر اُتر آیا ہے۔ کم وبیش سات عشرے گزرچکے ہیں مگر خطے کے عوام بدستور حالات کی قید میں ہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کو ڈیپ فریزر میں رکھ کر بھارت کا مزاج ٹھیک کرنے کی اپنی سی کوششیں کرکے دیکھ چکا ہے مگر بھارت کے رویے میں تبدیلی کے دور دور تک آثار نہیں۔ یہ ساری صورت حال جنوبی ایشیائی عوام کے مستقبل کے لیے کسی طور اچھی نہیں۔ بھارت کشمیر کی تحریک کو کچلنے کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہے۔ کشمیری بھارت کے قبضے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ مغربی طاقتیں بھارت کی محبت میں گرفتار ہیں۔ پاکستان اب کشمیریوں کی حمایت میں ڈٹ جانے کا فیصلہ کر چکا ہے، چین ایک نئے کھلاڑی کے طور پر کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اس لیے پاکستان میں ایک مربوط کشمیر پالیسی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام اور آزادکشمیر کے روابط کو انتظامی معاملات میں بہتری اور اختیارات میں اضافہ کرکے مضبوط بنانا ضروری ہے۔ میاں نوازشریف کا کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی اور تعلق کا زیادہ موثر پیغام اسی صورت میں ملتا کہ اگر وہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم پر بات کرتے۔ کشمیریوں کی قربانیوں کا زیادہ زور دار انداز میں تذکرہ کرتے مگر انہوں نے یہاں بھی تھوڑا مختلف انداز میں کیوں نکالا؟ ہی کی گردان جاری رکھی۔ میاں نوازشریف شاید اب ردعمل کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے خیال میں مسئلہ کشمیر اب فوج کا مسئلہ اور دردِ سر ہے۔ ان کی یہ ذہنی کایا پلٹ پہلے دور اقتدار ہی میں شروع ہو چکی تھی۔