مظفر اعجاز
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے کئی دھڑوں کی جانب سے اس (کسی ایک) پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں کا ترانہ گونجنے والا ہے۔ بظاہر متحدہ کے دھڑوں میں مزید دھڑے بندیاں ہورہی ہیں لیکن بہت سی سیاسی پارٹیاں جس چیز کو اب تک نہیں سمجھ سکیں وہ میڈیا وار ہے اور متحدہ کے دھڑے بننے کی خبریں اسی میڈیا وار کا حصہ ہیں۔ کئی ماہ سے ان دھڑوں اور متحدہ کی اہمیت ختم ہوتی جارہی تھی اس کو دوبارہ میڈیا میں جگہ پانے کے لیے کچھ کرنا تھا چناں چہ نیا منجن لے آئے حالاں کہ منجن پرانا تھا اس کے ٹریڈ مارک اور مونو گرام بدل گئے ہیں۔ پہلے بات بات پر الطاف حسین پارٹی کی رابطہ کمیٹی معطل کردیتے تھے اب لوگ روٹھنے لگے ہیں لیکن اصل مسئلہ وہی ہے جس کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا ہے کہ میڈیا وار۔۔۔ کشمیر غائب۔۔۔ سیاسی طور پر صرف نواز شریف میڈیا میں تھے وہ بھی کچھ کم ہوگئے بلکہ جس وقت فاروق ستار اور عامر خان کے تنازعے کی طے شدہ خبر بریک ہوئی اس وقت میڈیا پر نواز شریف اور عدلیہ ہی تھے دو ایک سزاؤں کے بعد سے زرداری اور عمران بھی محتاط تھے۔ ایسے میں متحدہ کی میڈیا میں انٹری کسی نہ کسی ہدایت کار کا حکم تھی۔ چناں چہ اِدھر خبر گرم ہوئی اُدھر سب چیخنے لگے۔ یہ منجن کا لفظ یوں ہی نہیں بولا جاتا بلکہ جس انداز سے یہ خبر بیچی گئی وہ منجن بیچنے کے طریقے کے عین مطابق ہے۔ کسی بھی بس، بازار یا ٹرین میں ایک شخص جھلایا ٹرے لے کر آتا ہے اور اسی طرح آواز لگاتا ہے سب متوجہ ہوتے ہیں اور کسی کو مفت کسی کو ٹیسٹ کراکے اور کسی کو گارنٹی دے کر دوچار بوتلیں فروخت کرکے اگلے اسٹاپ پر اُتر جاتا ہے۔ آج تک ان منجن فروشوں کی گارنٹی پر کسی نے ان سے سوال نہیں کیا۔ یہی حال ٹی وی اور اخبارات کا ہے جو چاہو شائع اور نشر کردو۔ ان کی گارنٹی پر بھی کوئی سوال نہیں کرتا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات بھی ایک منجن کی طرح تھے۔
بہرحال بات تو ہورہی تھی متحدہ کے دھڑوں کے اختلافات کی، میڈیا اور ہدایت کار بڑی خوبصورتی سے 35 ہزار افراد کے قتل کے ذمے داروں کو پہلے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرچکے، اب ہر ٹکڑے کو پاک صاف بنا کر لارہے ہیں۔ پی ایس پی تو مصطفی کمال کی تقریر اور تین مرتبہ رونے کی وجہ سے پاک صاف ہوگئی۔ ڈاکٹر فاروق ستار الطاف حسین سے لاتعلقی کے اعلان اور رینجرز کے ساتھ صرف ایک رات گزارنے کے بعد محب وطن ٹھیرے، عامر خان بیرون ملک رہے اور واپس آکر اب وہ ڈاکٹر فاروق ستار کو چیلنج کررہے ہیں۔ ایک صاحب درجنوں مقدمات کے باوجود میئر بن گئے۔ اب اس ہدایت کاری کا کمال دیکھیں کراچی اور حیدر آباد کے 35 ہزار جوان مہاجر یا لسانی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے اور سب کے سب رہنما پارسا بن گئے۔ صورت حال کچھ یوں ہے کہ لسانی سیاست کے بانی الطاف حسین، غدار جو الطاف حسین کو گالی دے یا برا کہے وہ پاک صاف اس کے بانی مصطفی کمال ہیں۔ ان سے لاتعلق فاروق ستار ہیں ایک رات میں اسلامی جمعیت طلبہ کے 69 کارکنوں کو قتل اور زخمی کرنے کے ذمے دار عامر خان اور آفاق احمد پارسا ٹھیرے۔ حقیقی اور حقوقی کے نام پر اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرکے بوری بند لاش پھینکنے والے بھی اب پارسا ہیں۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری، 12 مئی، 7 اپریل، بھتا خوری، سیکڑوں ہڑتالوں کے نتیجے میں کھربوں روپے کے نقصان، کھربوں کی گاڑیوں کو جلائے جانے کے واقعات، سب کے سب غت ربور ہوگئے۔ پاکستانی میڈیا کو سب سے پہلے اس کا جواب دینا چاہیے کہ جن لوگوں کی گردنوں پر پاکستانیوں کا اتنا سارا خون ہے اور یہ لوگ قوم کے اس قدر مقروض ہیں کہ ان کی نسلیں یہ قرض ادا نہیں کرسکتیں لیکن ہمارا میڈیا ان کو ایسے سروں پر بٹھائے ہوئے ہے جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ کوئی ان سے یہ حساب نہیں لیتا کہ کراچی کے ساتھ آپ لوگوں نے کیا کیا۔ حیدر آباد کو کس نے اُجاڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر کوئی ہمت بھی کرے تو اس طرح کا انٹرویو کرتا ہے کہ ۔۔۔ چور صاحب چور صاحب۔۔۔ آپ پاکستان کب آرہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا فیصلہ پارٹی کرے گی اچھا۔۔۔ تو آپ اپنا ٹکٹ تو خود لے سکتے ہیں۔۔۔ تھوڑا بہت مذاق کرنے کے بعد دوسرے چور صاحب کے پاس۔۔۔ کوئی آنسو بہا رہا ہے، کسی کی ہچکی بندھ گئی ہے، کوئی بار بار روتا دکھائی دے رہا ہے۔ ٹویٹر اکاؤنٹ میسج کی خبر بھی الگ چل رہی ہیں۔ گویا جو کچھ جرائم کیے تھے وہ الطاف حسین کے کھاتے میں ڈالے اور سب اچھے ہوگئے اور حکومت کہاں ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ اس معاملے میں تو حکومتوں کی خاموشی اور رویہ مجرمانہ ہے، یہ غفلت نہیں ہے بلکہ یہ حکمران صرف چند ووٹوں، چند نشستوں اور کسی قرارداد کی حمایت کی خاطر کراچی اور حیدر آباد کے عوام کے قاتلوں اور ملک دشمنوں کو سر پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ پاکستان کو ان لوگوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے لیکن سارے قومی ادارے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں بلکہ قوم سے بھی آنکھیں بند کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ کیا پولیس، ایف آئی اے، سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی سمیت درجنوں اداروں کو یہ نہیں معلوم کہ کون کون سے سیاسی لبادوں میں کون کیا جرائم کررہا ہے۔ یہی لوگ ان جرائم پیشہ افراد کو سیاسی چھتری فراہم کرتے ہیں۔ ان ہی کے پاس وہ جادو کی چھڑی ہے جس کے ذریعے ان کو گروپوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان کا ایک حکم انہیں کسی بھی پرچم کے سائے تلے ایک کردیتا ہے۔ یہ جادوگر ہدایت کار جب چاہتے ہیں آصف زرداری کو ملک کا بدنام ترین آدمی بنادیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں صدارت پر پہنچادیتے ہیں۔ وہی نواز شریف جو ان کی آنکھ کا تارا تھا آج ناسور اور درندہ قرار دیا جارہا ہے۔ بہر حال انتظار فرمائیں یہ جاننے کے لیے کہ متحدہ کس پرچم کے سائے تلے ایک ہوگی۔