ڈھاکا کی خصوصی عدالت کا ایک اور فیصلہ

295

بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم اور حزب اختلاف بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کو بنگلادیش کی عدالت نے 5 سال قید کی سزا سنادی ہے۔ انہیں فوری طور پر جیل منتقل کردیاگیا۔ حسینہ واجد کی حکومت نے انہیں یہ سزا خصوصی عدالت کے ذریعے دلوائی ہے۔ اس پر پورے بنگلا دیش میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور پولیس نے درجنوں مظاہرین کو زخمی، سیکڑوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ 72 سالہ خالدہ ضیا پر الزام ہے کہ انہوں نے 2001ء سے 2006ء تک اپنے دور اقتدار میں یتیموں کے لیے مختص ایک ٹرسٹ کے فنڈ میں ڈھائی لاکھ ڈالر کی خورد برد کی تھی۔ خالدہ کے جلاوطن بیٹے اور بی این پی کے نائب چیئرمین سمیت دیگر 4رہنماؤں کو بھی 10،10 برس قید و جرمانے کا حکم سنایا ہے۔ بظاہر تو یہ عدالت کا فیصلہ ہے جس پر تبصرہ نہیں کیا جانا چاہیے لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے خصوصی عدالتیں بنا رکھی ہیں۔ ان عدالتوں کی حیثیت اور ججوں کی قانونی مہارت پر بین الاقوامی سطح پر اعتراضات کیے جاچکے ہیں۔ ان عدالتوں کی حیثیت اور جانبداری اس وقت کھل کر سامنے آگئی تھی جب جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنماؤں کو اندھا دھند سزائیں دی گئیں اور کئی معزز و محترم رہنماؤں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بنگلا دیش کی پارلیمان کے رکن اور حکومتوں میں بھی شریک رہے۔ زیادہ تر افراد پر یہ الزام عاید کیا گیا کہ انہوں نے 1971ء کی خانہ جنگی میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور بنگالیوں کو قتل کیا۔ جب کہ ان میں سے بیشتر ایسے تھے جو 1971ء میں اس قابل ہی نہ تھے کہ کسی قسم کی غارتگری میں حصہ لے سکتے۔ لیکن حسینہ واجد 46 سال پہلے کے واقعات کو بنیاد بناکر انتقامی کارروائی پر اتر آئیں۔ اس کی وجہ ان کا جماعت اسلامی سے خوف تھا۔ دوسری طرف خود حسینہ واجد کے والد اور بنگلا دیش کے بانی مجیب الرحمن نے بھارت اور پاکستان کے ساتھ سہ فریقی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت 1971ء کے واقعات پر کسی کو سزا نہیں دی جائے گی۔ مگر حسینہ واجد بھارت کے اشارے پر چل رہی ہیں۔ ان کے برعکس خالدہ ضیا نے اپنے دور حکومت میں نہ صرف بھارتی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اپنی حکومت میں جماعت اسلامی کو بھی شریک کیا۔ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے کے مصداق حسینہ واجد جماعت اسلامی اور بی این پی کے خلاف انتقامی کارروائی کررہی ہیں۔ لیکن بی این پی بنگلا دیش میں مقبول جماعت ہے اور اگر وہاں صاف شفاف انتخابات ہوگئے تو بی این پی ایک بار پھر برسر اقتدار آسکتی ہے۔ ان کے شوہر ضیا الرحمن بنگلا دیش کی فوج کے سربراہ تھے جنہوں نے مارشل لا لگایا تھا۔ فوج سے تعلق کی بنا پر خالدہ ضیا کا فوج میں بھی احترام پایاجاتا ہے۔ حسینہ واجد کا نیا اقدام ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ان کو بنگلادیشی عوام سے زیادہ بھارت پر بھروسہ ہے جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنوانے میں اپنی فوج کو بھی استعمال کیا۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ڈھاکا میں کھڑے ہوکر فخریہ یہ کہہ چکے ہیں کہ بنگلا دیش مکتی باہنی نے نہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور فوج نے بنایا۔ مکتی باہنی کے لباس میں بھارتی فوج لڑرہی تھی۔ گویا 1971ء کی خانہ جنگی میں قتل عام کا ذمے دار بھی بھارت تھا مگر حسینہ واجد میں اتنی ہمت نہیں کہ نریندر مودی کے اعترافات لے کر عالمی عدالت انصاف میں جائیں اور ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کریں۔ خالدہ ضیا پر اور بھی درجنوں مقدمات قائم ہیں اور حسینہ واجد کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ جیل سے باہر نہ آسکیں۔ بنگلا دیش میں اسی سال پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں خالدہ ضیا حصہ نہیں لے سکیں گی اور یہی حسینہ واجد کی خواہش ہے۔ جہاں تک خورد برد کا معاملہ ہے تو یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ تمام ترقی پزیر ممالک میں یہ بات عام ہے، خاص طور پر جو اقتدار میں ہوتے ہیں وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پاکستان میں بھی برسر اقتدار طبقے میں بد عنوانی عام ہے اور کھربوں روپے کی دولت لوٹ کر ملک سے باہر منتقل کردی گئی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری پر بھی یہ الزام لگ چکا ہے کہ انہوں نے اربوں ڈالر بیرون ملک بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ کتنے ہی حکمران اور با اثر افراد نے قانون کی پکڑ سے بچنے کے لیے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سابق وزیر خزانہ اور میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار نواز شریف پر منی لانڈرنگ کا الزام لگاچکے ہیں تاہم الزام لگانا اور اسے ثابت کرنا دو الگ الگ معاملات ہیں۔ بنگلا دیش میں اگر عوام کا احتجاج بڑھ گیا تو یہ حسینہ واجد کے اقتدار کے لیے خطرناک ہوگا۔