ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
حال ہی میں وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ہدایت جاری کی ہیں کہ مالی سال 2017-18ء کے ریونیو ٹارگٹ کو ہر حال میں پورا کیا جائے اور اس سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے۔ یہ ہدایت جاری کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ رواں مالی سال کے گزشتہ سات ماہ میں ٹیکسوں کی وصولی میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور اس کا مجموعی حجم 2 ٹریلین روپے ہے جب کہ پچھلے سال اس مجموعی مدت میں 17 سو ارب روپے جمع ہوئے تھے اور اس طرح ٹیکسوں کی وصولی میں تقریباً 16 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اب تک کا جو ٹارگٹ تھا وہ پورا ہوگیا ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی اس لحاظ سے تو بہتر ہے کہ ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے اور ملک کا انتظام چلانے کے لیے جو فنڈ حکومت کو درکار ہیں وہ باآسانی اسے دستیاب ہوں گے اور اس طرح کاروبار حکومت آرام سے چلتا رہے گا۔ لیکن اس میں تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ٹیکس جمع کس طرح کیے جارہے ہیں اور دوسری یہ کہ ٹیکس خرچ کہاں ہورہے ہیں۔ جہاں تک ٹیکس وصولیابی کا تعلق ہے تو صورت حال یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے کا فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے جو راستہ اپنایا ہے وہ یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) میں اضافہ کیا جائے، اُن کی شرح میں اضافہ کیا جائے اور اس طرح ٹیکسوں کا ٹارگٹ پورا کیا جائے، مثلاً دنیا میں مجموعی ٹیکسوں کی وصولی میں بلاواسطہ ٹیکس (Direct Taxes) کی شرح زیادہ ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس مجموعی ٹیکس کا 60 فی صد ہیں اور اس میں سب سے اہم سیلز ٹیکس ہے پاکستان میں جس کی شرح 17 فی صد ہے جو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، سیلز ٹیکس کی شرح ایران میں 8 فی صد، انڈیا میں 15 فی صد، سری لنکا میں 11 فی صد اور ملیشیا میں 6 فی صد ہے۔ سیلز ٹیکس کی بھاری شرح کے باعث پاکستان میں قیمتیں بہت زیادہ ہیں، پھر مزید یہ کہ سیلز ٹیکس کے علاوہ ود ہولڈنگ ٹیکس، ریگولیٹری ڈیوٹی، امپورٹ ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی بھی وصول کی جاتی ہے۔ مثلاً پٹرول اور ڈیزل جس کا ملک کی معیشت میں اہم کردار ہوتا ہے اس کی فروخت پر حکومت عوام سے سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس، سفری اخراجات، ڈیلرز کا منافع اور پٹرولیم لیوی شامل ہیں اور ان سب کو ملا کر حکومت پٹرول پر 25 روپے اور ڈیزل پر 30 روپے فی لیٹر عوام سے وصول کررہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس حکومت کے لیے ریونیو وصول کرنے کا آسان ذریعہ ہے۔ حکومت عوام دوستی اور سہولت کا خیال کرتے ہوئے ان ٹیکسوں کا بوجھ جو غریب عوام پر لاد دیا گیا ہے وہ کم کرسکتی ہے۔ دوسری طرف ڈائریکٹ ٹیکسوں کا دائرہ ملک کے معقول اور کاروباری لوگوں تک بڑھایا جائے جن میں بلڈرز، ڈاکٹرز، کھلاڑی، کاروباری لوگ اور بیورو کریسی میں بیٹھے ہوئے لوگ شامل ہیں تو ٹیکسوں کا ٹارگٹ پورا ہوسکتا ہے اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوسکتا ہے۔
اسی طرح پچھلے دنوں حکومت نے تقریباً 300 اشیا پر 5 سے 15 فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کردی، ان اشیا میں کھانے پینے کی چیزیں، ادویات اور پاکستان میں بننے والی مصنوعات کا خام مال شامل تھا۔ اس اقدام پر مختلف حلقوں کی جانب سے احتجاج ہوا اور اس طرح یہ ڈیوٹی واپس لی گئی مگر اس عرصے میں حکومت کو خاصا ریونیو حاصل ہوگیا۔ یہ وہ معلومات ہیں جن پر نا تو پارلیمنٹ میں آواز اُٹھائی جاتی ہے اور نہ ہی بڑی سیاسی پارٹیاں کوئی بات کرتی ہیں۔ عوام کے نام پر سیاست کرنے والے عوام کی فلاح وبہبود پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھاتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس جو جمع کیا جاتا ہے وہ خرچ کہاں ہوتا ہے، پاکستان صحت اور تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے، سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری تعلیمی اداروں خصوصاً اسکولوں کا حال کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے جب کہ وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کا ہر سال کا بجٹ سو کروڑ روپے کے قریب ہوتا ہے۔ یہ تمام سیاستدان ملک میں اپنے علاج و معالجہ کو توہین سمجھتے ہیں اور علاج کے لیے امریکا اور برطانیہ کا رُخ کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر پر ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ، الاؤنسز، ٹیلی فون بل اور پٹرول میں خرچ کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف ملک کی اشرافیہ ٹیکس نہیں دیتی یہاں تک کہ ٹیکس کا گوشوارہ جمع کرانا توہین سمجھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بار بار کی یاد دہانی کے بعد جب سیاستدانوں کی رکنیت قومی یا صوبائی اسمبلی سے معطل کردیتا ہے تو ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے جاتے ہیں اور ٹیکس کی رقم اتنی معمولی جو ان کے شاہانہ طرز زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی اور دوسری طرف یہ طبقہ حکومت سے طرح طرح کی مراعات وصول کرلیتا ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی کا نظام بہتر اور متوازن بنایا جائے تو ٹیکس بھی زیادہ جمع ہوگا اور عوام کو بھی ریلیف ملے گا مگر کیا حکومت اس کے لیے تیار ہے۔