پیپلز پارٹی کا گڑھ موت کے گڑھے میں

402

سندھ پر طویل عرصے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور یہ پیپلز پارٹی کے گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں کے عوام ہی اس کو ووٹ دے کر مسند اقتدار تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے ووٹروں کی حالت بہتر بنانے یا ان کو تھوڑی سی سہولت فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہ محض الزام نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جو صوبے کے چپے چپے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا اپنا تعلق لاڑکانہ سے تھا اور ان کی صاحبزادی گڑھی خدا بخش بھٹو کو اپنا آبائی گاؤں قرار دیتی رہیں۔ تمام وسائل رکھنے کے باوجود حکمران تھرپارکر میں برسوں سے ہونے والی بچوں کی اموات نہیں روک سکے۔ ایک شقی القلب وزیر اعلیٰ تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ بچوں کا مرنا معمول کی بات ہے۔ یعنی تھرپارکر میں موروں کا مرنا اور انسان کے بچوں کا مرجانا ایک برابر ہے۔ تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکت کا سبب ایک تو خوراک کی قلت ہے، دوسرے اسپتالوں میں علاج، معالجے کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ حکمران اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ مٹھی اور دیگر شہروں کے اسپتالوں میں دواؤں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ غالباً تھرپارکر کے بچوں کو مرنے کا شوق ہے۔ ان بچوں اور ان کی ماؤں کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ غذائی قلت کے شکار ہیں۔ بچے بالکل ڈھانچوں کی طرح ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بطور غذا جو گندم فراہم کی گئی تھی اس میں آدھی تو مٹی نکلی لیکن کسی کی پکڑ دھکڑ نہیں ہوئی۔ اپنے ایوانوں میں ہر طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور تقریبات میں کھانے کی بڑی مقدار ضائع کرتے ہوئے کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ کتنے ہی لوگ ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق بے نظیر کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش بھٹو میں واقع نوڈیرو اسپتال کا شعبہ امراض قلب ایک عرصے سے بند پڑا ہے۔سینئر سول جج رتو ڈیرو محمد علی نے چھاپا مارا تو انکشاف ہوا کہ گوداموں (اسٹورز) میں دو سال پرانی زاید المیعاد اور نئی ادویات کچرے کا ڈھیر بنی ہوئی تھیں۔ اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں گندگی، آپریشن کے آلات زنگ آلود ہوچکے تھے۔ ان آلات سے کسی کا آپریشن کیا گیا تو ویسے ہی مرجائے گا۔ معزز جج نے چھاپا مارا تو دیکھا کہ اسپتال کے شعبہ قلب کی تعمیر شدہ بلڈنگ بند اور میٹرنٹی ہوم پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ جج صاحب نے فی الوقت تو تالے کھلوا دیے لیکن جن کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں وہ کون اور کیسے کھلوائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس ابتری کے ذمے دار بھی ہوں گے۔ جج صاحب نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ لاڑکانہ کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن ایم ایس صاحب نے از خود اس صورت حال پر توجہ کیوں نہ دی۔ جج صاحب نے چھاپا نہ مارا ہوتا تو معاملات ایسے ہی چلتے رہتے۔ کچھ بعید نہیں کہ چند دن یا چند ماہ بعد پھر سب کچھ ایسے ہی ہو جائے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایم ایس کو بھی سزا دی جاتی اور اگر سندھ میں کوئی وزارت صحت ہے تو اس کے ذمے داروں کو بھی لائن حاضر کیا جاتا۔ اس اثنا میں مٹھی میں مزید 4بچے دم توڑ گئے۔ صرف ایک ماہ میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 50سے بڑھ گئی ہے۔ اسپتالوں میں بد انتظامی اور سہولتوں کے فقدان سے ماؤں اور بچوں کی زندگی نگلنے کا سلسلہ تھمتا تو کیا، کم بھی نہیں ہوا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری نوجوان ہیں اور باہر کے تعلیم یافتہ۔ وہ اگلا وزیر اعظم بننے کی مہم ضرور چلائیں لیکن اس سے پہلے اپنی اماں اور ناناکے آبائی شہروں کی خبر بھی لیں۔ اگر ان کے پاس انسانی معاملات کو دیکھنے کی فرصت نہیں تو اپنی پھوپھی فریال تالپور ہی کو دوسرے کاموں سے ہٹا کر یہ کام سونپ دیں۔ عدالت تو ان سے یہ سوال کر ہی رہی ہے کہ ایک شہر کے لیے 90ارب روپے کی رقم کہاں گئی ؟