ایوان بالا کے لیے خرید ، فروخت 

382

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر نئے انتخابات سر پر ہیں لیکن ایسی افسوسناک اطلاعات ہیں کہ سینیٹ کی نشستوں کے لیے خرید و فروخت شروع ہوگئی ہے ایسی صورتحال ہی کے لیے ہارس ٹریڈنگ یا گھوڑوں کی تجارت کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ ایوان بالاہو، ایوان زیریں ہو یا دیگر عوامی نمائندگی کے ادارے، ان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خرید و فروخت ایک معمول ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ شہروں میں تو تھانے بھی فروخت ہوتے ہیں۔ جہاں زیادہ کمائی ہو وہاں کی قیمت بھی زیادہ لگتی ہے۔ لیکن اس طرح تھانوں سے لے کر پارلیمان تک پہنچنے والے عوام و ملک کی خدمت خاک کریں گے۔ ایسے لوگ سب سے پہلے تو اپنی رقم مع سود وصول کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا نہیں پرانا مسئلہ ہے۔ اس کی بڑی ذمے داری بکنے والوں پر عاید ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ لالچ اور جلب منفعت ہے۔ سینیٹ کے انتخابات نے سب سے زیادہ ایم کیو ایم پاکستان کو متاثر کیا ہے۔ ایم کیو ایم پہلے ہی تین دھڑوں میں تقسیم ہے لیکن اب ایم کیو ایم پاکستان بھی دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔ فی الحال ان دھڑوں کو بہادرآباد گروپ اور پی آئی بی گروپ یا عامر، فارق ستار گروپ کا نام دیاگیا ہے۔ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب ایم کیو ایم کے کنوینر فاروق ستار نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کامران ٹیسوری کو سینیٹ کے لیے نامزد کیا۔ اس پر رابطہ کمیٹی کی اکثریت عامر خان کی قیادت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ فاروق ستار نے اپنے اس انتخاب کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا گو کہ ہفتہ کو رات گئے ایک اور خطاب میں فاروق ستار بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ انا کا مسئلہ نہیں اور کامران ٹیسوری نے انہیں یہ اختیار دیا ہے کہ جب چاہیں ان کا نام نکال دیں۔ جب یہ پیشکش ہے تو فاروق ستار اس کو قبول کرکے جھگڑا ختم کریں لیکن کہنے کے باوجود مسئلہ انا ہی کا ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ میں پارٹی سربراہ ہوں اس لیے میرا حکم مانا جائے۔ مگر فاروق ستار الطاف حسین نہیں ہیں جن کے خوف سے کوئی بھی چوں نہیں کرتا تھا کیونکہ خود رابطہ کمیٹی اس نعرے پر عمل کرتی اور کراتی تھی کہ ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘۔ مگر اب الطاف حسین کا زور ٹوٹ چکا ہے اور ان کے حکم پر عمل کروانے والے خود ان کے مقابل کھڑے ہوگئے ہیں۔ فاروق ستار نے اب تک کے تازہ خطاب میں الطاف حسین کا نام لیے بغیر ان کے احکامات کو ڈنڈے کا زور قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اب ڈنڈے کے زور پر نہیں افہام و تفہیم سے کام ہوگا۔ لیکن اب تک یہ مبینہ افہام و تفہیم کہیں نظر نہیں آئی۔ ایسا ہوتا تو ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کی سینیٹ کے لیے نامزدگی گلے کی ہڈی نہ بن جاتی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کی اتفاق رائے سے نہیں بلکہ اپنے چند رفقا کی رائے سے کر ڈالا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سینیٹ کے ٹکٹ پر اختلاف کی آڑ میں ایم کیو ایم پر قبضے کی جنگ چل رہی ہے۔ بہادرآباد گروپ کنوینر کو ہٹانے کی کوشش کررہا ہے اور فاروق ستار ایسی صورت میں رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنے پر تیار بیٹھے ہیں۔ نئے پارٹی سربراہ کے لیے خالد مقبول صدیقی کا نام سامنے آچکا ہے۔ تاہم ہفتے کی رات فاروق ستار نے خاصی مصالحانہ تقریر کی ہے اور کارکنوں کی ماؤں، بہنوں کے کرب کا ذکر بھی کیا ہے مگر ان سے زیادہ تو خود فاروق ستار کرب میں محسوس ہورہے ہیں۔ وہ الطاف حسین کی جگہ لینے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور کوئی اور بھی کامیاب نہیں ہوگا۔ بہادرآباد دھڑے کے قائد عامر خان تو برسوں پہلے ایسی کوشش کرکے ناکام ہوچکے ہیں۔ جلد ہی ایجنسیوں اور حکمرانوں نے مایوس ہوکر پھر الطاف حسین اور اس کے خونخوار ٹولے پر داؤ لگا دیا۔ ورنہ لندن میں بیٹھا خود ساختہ جلا وطن شخص طویل عرصے تک کراچی پر اپنا قبضہ کیسے مضبوط رکھ سکتا تھا۔ پاکستان دشمنی اور بھارت سے تعلقات تو 2004ء میں بھی کھل کر سامنے آگئے تھے لیکن پرویز مشرف الطاف حسین کو گود میں لیے رہے۔ اگست 2017ء میں الطاف حسین کھل کر پاکستان کیخلاف نعرے نہ لگاتا تو آج بھی کونے کھدروں سے نکل آنے والے ’’الطاف بھائی‘‘ ہی کے نعرے لگا رہے ہوتے۔ تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ فاروق ستار سینیٹ کی 4 نشستیں ساڑھے تین کروڑ روپے فی کس میں بیچ چکے ہیں لیکن یہ ایسا الزام ہے جس کا ثبوت فیصل واوڈا کے پاس نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کی ڈالی سے ٹوٹ کر گرنے والوں کے لیے منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں خود رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار کو عقل سے کام لینا ہوگا جس کا امکان کم ہے۔