کتا نامہ

721

ایک واقعے سے آغاز کرتے ہیں۔
ایران کا بادشاہ ہرمزان بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑا ہوا انتہائی ذلت اور خواری کے ساتھ سیدنا عمرؓکے سامنے کھڑا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے اس سے فرمایا: ’’کچھ کلام کرو‘‘۔ ہرمزان نے کہا ’’زندوں والا کلام کروں یا مردوں والا؟‘‘۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: ’’زندوں والا‘‘ ہرمزان بولا ’’ہم شان والے تھے اور تم جہالت میں پڑے تھے۔ نہ ہمارا کوئی دین تھا اور نہ تمہارا۔ ہم عرب کے لوگوں کو کتوں کی طرح دھتکارتے تھے۔ پھر اللہ نے تم لوگوں کو عزت دی اور اپنا رسول تم میں مبعوث کیا۔ تم نے ہمیں اطاعت کے لیے کہا ہم نے تمہاری اطاعت نہیں کی۔‘‘ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: ’’تم ہمارے قبضے میں ایک قیدی کی طرح ہو اور ایسی باتیں کررہے ہو!‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اس کو قتل کردو‘‘۔ ہرمزان نے کہا: ’’کیا تمہارے پیغمبر نے تمہیں یہی تعلیم دی ہے کہ کسی کو امان دے کر قتل کردو‘‘۔ سیدنا عمرؓ نے حیرت سے دریافت کیا ’’میں نے تجھے کب امان دی؟‘‘ ہرمزان نے کہا: ’’ابھی تو تم نے مجھے کہا زندوں والا کلام کرو۔ جس کو اپنی جان کا خوف ہوتا ہے وہ زندوں میں شمار نہیں ہوتا۔ ‘‘ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: ’’اللہ اس کو مارے۔ اس نے مجھ سے امان لے لی اور مجھے خبر ہی نہیں ہوئی‘‘۔
اس واقعے کے بہت سے عنوان ہوسکتے ہیں۔ ایک عنوان ’’بادشاہوں کا کلام کلام کا بادشاہ‘‘ بھی ممکن ہے۔ واقعہ بیان کرنے کی وجہ ہے الفاظ ’’کتوں کی طرح دھتکارتے تھے‘‘۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں کتوں کی طرح دھتکارنے والوں اور دھتکارے جانے والوں کے مقام بدل گئے ہیں۔
ہمارا کام خبریں پڑھ کر تبصرہ کرنا ہے لیکن بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ کوئی خیال آنے کے بجائے ذہن میں کتے آنے لگتے ہیں۔ کتے آنے کیا لگتے ہیں باقاعدہ ذہن میں بھونکنے لگتے ہیں۔ کتوں کے بھونکنے سے دماغ ان کے کتے پن کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس پر بھی ایک واقعہ سن لیجیے۔ ایک بادشاہ کا گزر کسی بستی سے ہوا۔ اجنبی کو دیکھ کر بستی کے کتوں نے بھونکنا شروع کردیا۔ کتوں کا بھونکنا بادشاہ کو بہت برا لگا۔ اس سے پہلے کہ بادشاہ بستی والوں پر یا کتوں پر کوئی عتاب کرتا وزیر نے کہا: ’’بادشاہ سلامت کتے بھونک نہیں رہے بلکہ بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں‘‘۔ پہلے کے بادشاہ بھی بس بادشاہ ہی تھے وزیر کی اس بے وقوفانہ بات پر یقین کرلیا۔ وزیر کو حکم دیا اعلان کردو کہ بستی والے کل اپنے کتوں کو لے کر محل میں آجائیں کتوں کو پیٹ بھر کر کھلایا جائے گا۔ اگلے دن بستی والے کتوں کو لے کر محل پہنچے تو کتوں کے لیے انواع واقسام کے کھانے لگے ہوئے تھے۔ کتے کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ ایک ایک ہڈی اور بوٹی پر آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے پر بھونکنے لگے۔ ایک کی گردن دوسرے کے منہ میں۔ ایک کی ٹانگ دوسرا دبوچے ہوئے۔ کوئی کسی کا کان کاٹ رہا ہے اور کوئی دم۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا اتنا کھانا موجود ہے پھر یہ لڑ کیوں رہے ہیں۔ وزیر نے نفرت سے جواب دیا: ’’حضور! کتے ہیں ااپنا کتا پن دکھا رہے ہیں۔‘‘
کتوں کے کتا پنے سے میرتقی میر ہوں یا پطرس بخاری سب ہی عاجز تھے۔ میر تقی میر کو ایک مرتبہ برسات میں سفر کرنا پڑگیا تھا۔ سفر سے گزر کر وہ ایک بستی میں پہنچے۔ اس سفر اور بستی کا احوال آپ نے ایک مثنوی بعنوان ’’نسنگ نامہ‘‘ میں لکھا ہے۔ بستی کے کتے میر کے حواس پر اس بری طرح سوار ہوئے کہ آپ نے ایک دو نہیں اکٹھے اٹھائیس اشعار کتوں سے متعلق لکھ دیے۔ چند ملاحظہ فرمائیے:
کتوں کے چاروں اور رستے تھے
کتے ہی واں کہے تو بستے تھے
سانجھ ہوتے قیامت آئی ایک
شور عف عف سے آفت آئی ایک
لوگ سوتے ہیں کتے پھرتے ہیں
لڑتے ہیں دوڑتے ہیں گرتے ہیں
جاگتے ہو تو دوبدو کتے
سوکر اُٹھو تو روبرو کتے
باہر اندر کہاں کہاں کتے
بام ودر چھت جہاں تہاں کتے
کتے یارو کہ جان کا تھا روگ
جاں بلب ہوں نہ کس طرح سے لوگ
آدمی کی معاش ہو کیوں کر
کتوں میں بودوباش ہو کیوں کر
نظم میں اگر میرتقی میر سگ شناس تھے تو نثر میں یہ مقام پطرس بخاری کو حاصل ہے۔ ان کے مضمون کتے سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجیے ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ایک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں اور بوڑھوں سب ہی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم اسفندیار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کے لیے بھونک لے تو ہم بھی چارو ناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک (اگرچہ ایسے وقت میں اس کو زنجیر سے بندھا ہونا چاہیے) لیکن یہ کم بخت دو روزہ، سہہ روزہ دو دو تین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے‘‘۔
پاکستان کے بنیادی مسئلے کو فیض احمد فیض نے کتوں کے تناظر ہی میں دیکھا ہے۔
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد
صاحبو کالم تمام ہوا چاہتا ہے ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس میں کتے کہاں سے آگئے۔ ہم جمعرات کو خبر شائع ہونے والی کور کمانڈرز میٹنگ پر تبصرہ کرنا چاہتے تھے جس میں امریکا سے تعاون کی تیاری پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ ہم اس پر امریکا کی مدح میں غالب کا یہ شعر درج کرنا چاہتے تھے ’’کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب۔۔۔ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا‘‘ لیکن نہ جانے کتے کیسے درمیان میں آگئے۔ ویسے کتے میں ایک خوبی بہت اعلیٰ پائی جاتی ہے وہ یہ کہ کتا مالک کا وفادار جانور ہے۔