ٹیکسٹائل اپیرل سیکٹرمیں خراب حالات کے باوجود برآمدات میں تیزی رہی

362

  ایکسپورٹرز کو فراہم کردہ 180اربروپے کا وزیراعظم ایکسپورٹ پیکج جون2018میں ختم ہونے کے بعد برآمد کنندگان کی مشکلات میں دوبارہ اضافے کا خدشہ

کراچی:وفاقی حکومت کی جانب سے ایکسپورٹرز کو فراہم کردہ 180ارب روپے کا وزیراعظم ایکسپورٹ پیکج جون2018میں ختم ہونے کے بعد برآمد کنندگان کی مشکلات میں دوبارہ اضافے کا خدشہ ہے تاہم وزیراعظم ایکسپورٹ پیکج ملنے کے بعدٹیکسٹائل بالخصوص اپیرل سیکٹر کی پرفارمنس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ چندبرسوں کے دوران پاکستانی برآمدات میں تنزلی اور ریجن کے ممالک کی نسبت یوٹیلٹی ،پورٹ، ٹرنسپورٹ چارجز اور ورکرز کی تنخواہیں 26 فیصد سے 110فیصد تک زائد ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل اپیرل سیکٹرکی برآمدات میں تیزی رہی اور یہ سیکٹرملک کو قیمتی زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ بن گیاہے۔ٹیکسٹائل سیکٹر کے

ذرائع کے مطابق ملکی ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو خطے کے ممالک کے ایکسپورٹرزسے عالمی مارکیٹ میں شدید مسابقت کا سامنا ہے،پاکستان میں صنعتی شعبے کو ملنے والی گیس بنگلہ دیش کی نسبت 126فیصد، بھارت کے مقابلے میں 63 فیصد اورویتنام کی نسبت 26فیصد زائد ہیں جبکہ پاکستان میں صنعتوں کو ملنے والی بجلی کا ٹیرف بھی انہیں تینوں ممالک کے مقابلے میں بالترتیب 22فیصد اور 37 فیصد زائدہے اسی طرح پاکستانی ورکرزکی اجرت بنگلہ دیش کی نسبت110فیصد، بھارت کی نسبت24.21فیصد اور ویتنام کے مقابلے میں 25.8 فیصد زیادہ ہیں،پاکستانی ورکرز کو ماہانہ 143 ڈالر اجرت دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ملکی صنعتکاروں اور برآمدکنندگان کو عالمی مارکیٹ میں اپنا مال فروخت کرنے کیلئے شدید جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے لیکن وزیراعظم ایکسپورٹ پیکج سے ملنے والی سپورٹ نے ٹیکسٹائل اپیرل سیکٹر کو عالمی مارکیٹ میں حریف ممالک کے ایکسپورٹرز کے سامنے کھڑے رہنے کے قابل بنایاجبکہ دوسرے برآمدی سیکٹرز سپورٹ ملنے کے باوجود نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکے۔

پاکستان گزشتہ برسوں کے دوران تیزی سے گرتی ہوئی برآمدات میں جہاں پاکستان قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوا وہیں پاکستان کے کئی ایکسپورٹرز گھر بیٹھ گئے اور بالخصوص چھوٹے ایکسپورٹرز کو مسائل کا سامنا رہاتاہم پاکستان سے فیبرکس کی برآمدات کم ہونے اور اس فیبرک سے ملک میں ہی گارمنٹس کی تیاری میں تیزی آنے سے برآمدات میں اضافہ ہوا اور بہتر توقعات کی بناءپر صنعتکاروں وایکسپورٹرز کو اپنی فیکٹریوں کی اہلیت میں اضافہ کرنا پڑا ،کئی صنعتکاروں نے اپنی فیکٹریوں میں توسیع بھی کی اور نئی جدید مشینری بھی درآمد کرلی ہے تاکہ عالمی مارکیٹ میں وہ ریجن کے دیگر ممالک کا مضبوطی سے مقابلہ کرسکیں۔ لیکن ریجن کے ممالک کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھنے کے باوجود ایکسپورٹرز کو یہ بھی خدشات ہیں کہ جون2018کے بعد وہ بھاری یوٹیلٹی اورپورٹس چارجزکے ساتھ ریجن کے ممالک کا مقابلہ کیسے کرپائیں گے

۔واضح رہے کہ مالی سال 2012-13 سے مالی سال 2016-17تک 5سال میں ملکی مجموعی برآمدات 15.02فیصد بڑھ کر20ارب44 کروڑ 76لاکھ92ہزار ڈالر تک پہنچ گئیں جن میں ٹیکسٹائل برآمدات 4.60بڑھ کر12ارب45کروڑ25لاکھ 32 ہزار ڈالر سے تجاوز کرگئیں ۔برآمدکنندگان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ایکسپورٹرزکو باربارپیکج دینے کے بجائے طویل المعیاد پالیسیاں دے اور پیداواری لاگت میں کمی کیلئے اقدامات کرے تاکہ مستقل بنیادوں پر ایکسپورٹس بڑھ سکیں۔اس ضمن میںچیئرمین پاکستان اپیرل فورم اور چیف کوآرڈینیٹرویلیو ایڈیڈٹیکسٹائل ایکسپورٹرز محمد جاوید بلوانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس کے نرخ خطے میں مسابقتی ممالک کے نرخوں کی نسبت بہت ذیادہ ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی صنعتوںکو سخت مسابقتی چیلنجز کا سامنا ہے،صنعتوں کیلئے یوٹیلیٹیز کے مہنگے نرخ ایکسپورٹس میں بڑی رکاوٹ ہیں، ٹیکسٹائل اپیرل سیکٹرمعیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اورویلیو ایڈیڈایکسپورٹ سیکٹر قومی خزانے کیلئے سب سے زیادہ ریوینیو اور زر مبادلہ کا اہم ذریعہ ہے۔انہوں نے کہا کہ صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اسی طرز پر دیگر یوٹیلیٹز اور معاملات کا بھی اثر پڑتا ہے جس میں گیس و پانی کے نرخوں کے علاوہ ، صنعتی خام مال اور لیبر چارجز بھی شامل ہیں جو خطے میں دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں ذیادہ ہیں،لہٰذا ایکسپورٹس کے فروغ کی خاطر برآمدی ٹیکسٹائل صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں کو مزید موافق بنانے کیلئے حکومت بجلی، گیس اور پانی کے سالانہ بنیاد وںپرعلیحدہ نرخ مقرر کرے۔